غربت کا مطلب بنیادی ضروریاتِ زندگی کی عدم دستیابی ہے۔غربت کا تعلق کسی ذات مذہب یا مسلک سے نہیں ہے۔ہر وہ انسان جو زندگی کی بنیادی ضروریات و سہولیات سے محروم ہے وہ غربت کا شکار ہے۔ اور غریب کہلاتا ہے۔اور ان کا شمار معاشرے کے غریب لوگوں میں ہوتا ہے۔ معاشرے نے اپنے لیے کچھ معیار بنا رکھے ہیں۔معاشرے نے اپنے آپ کو تین طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے امیر ، متوسط اور غریب ۔
غریب طبقہ معاشرے کا سب سےنچلہ طبقہ تصور کیا جاتا ہے۔ بعض دولت کے نشے میں چور اس طبقے کو انسانیت کے درجے سے گرا کر حقیر جانتے ہیں انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ان سے میل جول اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت ہے جس کو ہم ماننے کو تیار نہیں لیکن یہ حقائق کڑوے ضرور ہیں مگر حقیقت پر مبنی ہے۔ "کیا انہیں بھی خبر نہیں کہ انسان ہیں ہم جو کہتے پھرتے ہیں کہ مسلمان ہیں ہم” متوسط طبقہ زیادہ تر سفید پوش لوگ ہوتے ہیں جو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتے ہیں۔ غریب ہونا کسی کا قصور نہیں ہے معاشرے میں اگر غربت عروج پر ہے تو کہیں نا کہیں اس کے ذمہ دار ہم سب بھی ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے اس طبقے کو غربت کے نچلے دہانے میں دھکیل دیا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی نا انصافیاں اس معاشرے کی زندگیوں کو مشکل بنانے کی ذمہ دار ہے۔
جیسی عوام ہو اس پر ویسے حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔ شاید یہ ہماری آزمائش کا وقت ہے۔ یا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ہمارا ملک شدید معاشی بد حالی اور غربت کا شکار ہے۔ جس نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ حضرت علی نے فرمایا
” غربت انسان کو اپنے ہی شہر میں اجنبی بنا دیتی ہے "
ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ غربت سے دو چار ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں مہنگائی کی شرح میں بہت اضافہ ہوا ہے جس نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔جب ظلم و جبر، نا انصافی اور اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی عروج پر پہنچ جائے تو عذاب نازل ہوتے ہیں پاکستان سمیت تمام دنیاۓعالم کو 2019 میں ایک وباء کا سامنا کرنا پڑا جسے کرونا کا نام دیا گیا۔ عذاب کی صورت میں مسلط اس وباء نے انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ انسانی زندگی مفلوج ہو کر رو گئی کاروبار تباہ و برباد ہو کر رہ گیے۔ عوام معاشی اور ذہنی طور پر مفلوج ہو گئی ۔اس وباء کے دوران اچھے خاصے سفید پوش لوگ بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے۔ ملک کی بدلتی سیاسی صورتحال بھی غربت کی بڑی وجہ ہے۔ پٹرول کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے۔
بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شرح نا خواندگی بڑھ رہی ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کر پارہے۔ وہ بچے جو پڑھ لکھ کر اس قوم کا روشن مستقبل بن سکتے ہیں ان کا معصوم بچپن فکر معاش میں غرق ہو رہا ہے۔ "وہ سب معصوم سے چہرے تلاش رزق میں گم ہیں جنہیں تتلی پکڑنا تھی جنہیں باغوں میں ہونا تھا” "جن کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے تعلیم کی کتاب غربت میں وہ بچے دنیا کا بوجھ اُٹھائے پھرتے ہیں”
صرف بچے ہی نہیں ہماری معصوم بچیاں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں جہاں ان پر جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔ جہاں ان کی عصمت و حرمت اس قدر غیر محفوظ ہے۔ میرے ملک کا روشن مستقبل بننے والے یہ درخشاں ستارے اپنی معصومیت ، خواہشات اور اپنے مستقل کا گلا گھونٹ کر جینے کی خاطر ہر روز مر رہے ہیں۔ ڈپریشن، غصہ، نا انصافی، خود کشی چوری ، ڈاکہ زنی، اغواء برائے توان اور بہت سے معاشرتی جرائم زور پکڑ رہے ہیں۔
"امداد سے غربت ختم نہیں ہوتی انصاف سے غربت ختم ہوتی ہے”
غربت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہو برآمدات میں اضافہ، دولت کی مساوی تقسیم ہو، نو جوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں اس طرح ملک کو غربت، شرح نا خواندگی سے بچایا جا سکتا ہے۔ ” تڑپ کر بھو ک سے جا گتے ہیں انہیں نیند نہیں آتی یہ تو غریب لوگ ہیں صاحب ان پر عید نہیں آتی "