تازہ ترین
Home / Home / ماںّ ۔۔۔ تحریر: منزہ جاوید ۔ اسلام آباد

ماںّ ۔۔۔ تحریر: منزہ جاوید ۔ اسلام آباد

سب کو محبتوں کا ساتھ ماؤں کا ساتھ مبارک ہو اللہ تعالیٰ سب کو والدین کا فرمانبردار بنائے اور انکی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جب آپ ماؤں کا دن منا رہے ہیں تو کیا خالی دن ہی منایا ہے یا ماں کو بھی منایا ہے ماںّ کو کیا تحفہ دیا ہے محبت اظہار مانگتی ہے ماں سے محبت کا اظہار کیجیۓ ماںّ تو محبت بھری ایک جپھی سے ہی خوش ہو جاتی ہے اس سے محبت کا اظہار کرتے رہا کیجیے ماںّ کو عزت دیجئیے. مان دیجئیے انکو جب بھی ملیں انکا بچہّ بچیّ بنکر ملا کیجیے۔ ماںّ محبت کی علامت ہے جب بھی ہم ماں پکارتے ہیں ہماری پکار میں محبت اور عزت اور امید بندھی ہوتی ہے بچہّ جب بھی روتا ہے ماں لفظ ہی پکارتا ہے اللہ تعالی کی ماں سے محبت ہے کہ بچہّ پہلا لفظ ماں ہی بولتا ہے جب ہمیں کوئ تکلیف پہنچتی ہے تو عموماً ہم لوگ او ماں کا لفظ منہ سے ادا کرتے ہیں ہم عمر کے کسی بھی حصے میں پہنچ جائیں اٹھتے بیٹھتے اگر تکلیف محسوس ہو تو آؤ ماں یا او میری ماںّ ہی منہ سے نکلتا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے ماں کا لمس درد کی شدت میں دوا کا کام کرتا ہے اسکا لمس سکون کا باعث بنتا ہے اسکی آواز ہماری ذہنی ٹینشن میں کمی کا باعث بنتی ہے دکھ تکلیف میں ماں کا پاس ہونا دکھ کی کمی کا باعث بنتا ہے. اللہ تعالیٰ کو ماں کا اولاد کے لیے تڑپنا اسکے لیے مانگنا بہت پسند ہے اسی پسندیدگی میں اللہ تعالیٰ نے محترمہ جنابہ بی بی حاجرہ کو اولاد کی پیاس بجھانے کے لیے پتھروں سے زم زم نکالا انکی ممتا انکی تڑپ پے قربان جائیں کہ اللہ تعالیٰ انکی تڑپ کو ساری امت مسلمہ کے لیے انکی تڑپ کو اپنے گھر میں حاضری کا حصہّ ہی بنا دیا جب تک ہم صفاء مروا کے سات چکر نہیـــــں لگاتے ہمارا عمرہ مکمل نہیـــــں ہوتا اللہ اکبر قربان جائیں ماں بنانے والے کے اس نے ماں کو محبت کی علامت بنا دیا. ہم اپنے گھروں میں ماں کی محبت تڑپ اور اپنے آپ سے محبت کو دیکھ سکتے ہیں اگر کسی بچےّ کو بھوک لگی ہو تو ماں کی طبعیت ٹھیک نہ بھی ہو وہ اس کے لیے کھانا بنانے لگے گی اور بچوں کو کھانا کھلا کر اس کی طبیعت میں سکون آ جاتا ہے تکلیف ہمیں ہوتی ہے روتی وہ ہے دکھی ہم ہوتے ہیں رب سے ہمارے لیے مانگتی وہ ہے ایک دعا کی محفل میں میں نے ایک ماں سے پوچھا کیا دعا مانگ رہی ہیں آپ کو کیا پریشانی ہے اتنی لمبی دعا اور روتے ہوۓ مانگنا پیاری ماں نے کہا میں تو بس بچوں کے لیے ہی رب العزت سے مانگ رہی ہوں میرے بچے خوش رہیں تاکہ میرا دم سکون سے نکلے مجھے تو بچوں کی پریشانیاں مرنے بھی نہیـــں دیتیں اور پھر وہ دوپٹے سے آنسو صاف کرتے کہنے لگیں میرا رب غفور الرحیم ہے میری کوتاہیاں معاف کردے گا میری تو بس یہی دعا ہے مرنے سے پہلے اپنے بچوں کو اپنے اپنے گھروں میں ہنستا بستا دیکھ لوں تو پھر مجھے کوئی غم نہیـــں. سلام ہے ممتا تجھے تو مانگتی بھی ہے تو بچوں کے لیے اور اپنے بخشش کی امید تجھے رب العالمین سے ہے کہ وہ بخش دے گا ماں کی دعا ہمارے دکھوں اور تکلیفوں کے آگے شیلڈ کا کام کرتی ہے نجانے کون کون سی تکلیفیں ان کی دعاؤں کی وجہ سے ہم سے ٹل جاتی ہیں ہم خود بال بچوں والے بھی ہو جائیں تو دل چاہتا ہے ماں کی گود میں سر رکھیں ماں کی باہنوں میں لپٹ کر خود کو دنیا سے چھپا لیں نجانے ماں کے لمس میں رب تعالیٰ نے کون سی سکونیت رکھی ہے کہ کتنے بھی دکھ ہوں یاد ماں ہی آتی ہے اس سے پیار کی جپھی لگا کر اس کے سینے سے لگ کر کچھ دیر کے لیے دنیا بھول جاتے ہیں غم اسے بتا کر خود کو ہلکا محسوس کرتے ہیں ماں نہ ہی حکیم ہوتی ہے نہ وکیل لیکن پھر بھی تکلیف کی شدت میں کمی اس کے لمس سے ملتی ہے مسئلے اسے بتا کر لگتا ہے اب کوئی حل نکل آۓ گا. اب جن لوگوں نے اپنی ماؤں اور اپنے درمیاں ایک دیوار بنا لی ہے ان کے سامنے سمجھ دار اور بڑے ہو گٸے ہیں وہ اس سکون سے محروم ہیں اور اس تسلی سے محروم ہیں کہ فکر نہ کر سب ٹھیک ہو جاۓ گا ہونا تو وہی ہے تو ہماری تقدیر ہے لیکن ماں کے الفاظ سب ٹھیک ہو جاۓ گا سے بـے قراری بے سکونی کم ضرور ہوجاتی ہے اور کبھی کھبی جنابہ بی بی حاجرہ کی طرح ماں کی دعائیں ایسے قبول ہوتی ہیں کہ ناممکن ممکن ہو جاتا ہے ۔کوئی بھی ماں چاہے وہ معاشرے کی نظر میں اچھی ہے یا نہیں وہ ممتا میں ڈنڈی نہیــں مارتی اسکی محبت میں ملاوٹ نہیــں ہوتی دنیا کے وسائل کی مجبوریاں اپنی جگہ مگر ماں کی ممتا پے شک نہیں کیا جا سکتا آج کے دور میں جہاں لوگ کہتے ہیں وہ پہلے والی ممتا نہیــں رہی کسی ماں کو اگر کہا جاۓ تو آگ میں کود جا تیرے بچے کو لمبی زندگی اور خوشیاں ملیں گی تو ایک پل سوچے بغیر اس آگ میں کود جاۓ گی سارے رشتے بناوٹی ہو سکتے ہیں لیکن واحد والدین ہیں جن کی محبت ملاوٹ سے پاک ملے گی ماں باپ کو کبھی مت آزمانا وہ ہو سکتا ہے تمہاری آزمائش میں ہار جائیں لیکن وہ ہمارے لیے محبت اور دعا میں ہارنے والے نہیــں. ہم اکثر شکوہ شکایت کرتے ہیں ماں مجھ سے پیار نہیـں کرتی دوسرے کسی بہن بھائی سے زیادہ کرتی ہے تو وہ محبت تو ایک جیسی کرتی ہے لیکن وہ یہ بھی جانتی ہے کس کو اب میری زیادہ ضرورت ہے کس کو میری زیادہ توجہ چاہیے وہ ماں ہے کوئی تاجر نہیــں جو اپنے نفع نقصان کے لیے تمہاری محبت میں کمی پیشی کرے گی وہ تو محبت ہے بس بچوں کو چاہیے وہ ماں سے محبت کریں بغیر کسی لالچ اور طمع کے ماں کو ماں ہی رہنے دیں اسے آزمائش میں مت ڈالا کریں ماں رو دیتی ہے اور کیا روتی ہوئی ماں آپ کو اچھی لگے گی وہ محبت ہے اس سے محبت لیجیے اور اس سے محبت کیجیے یہ وہ ہستی ہے جسکی خدمت پے آپ کی بخشش ہو سکتی ہے حضرت اویس قرنی اپنی ماں کی خدمت کی وجہ سے جنت الفردوس کے حقدار ٹھہرے۔ آپ حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نہیـں بن سکتے تو تابعدار تو بن سکتے ہیں جسے جنت کی تمنا ہے اور عمل نیک کم ہیں اور انکے والدین زندہ ہیں تو ابھی بھی چانس ہے کہ ہم جنت الفردوس میں چلے جائیں والدین کی خدمت سے رب تعالی خوش ہوتا ہے اور جس عمل سے رب خوش ہو گیا دنیا وآخرت تو اسی کی ہے۔ جن کے والدین زندہ ہیں اللہ تعالیٰ انکو صحت تندرستی کے ساتھ لمبی زندگی عطاء فرمائے اور جن کے والدین حیات نہیـــــں دعا ہے
وبركاته
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا.

اور دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کی بخشش فرما کر ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

ہم عوام کے ہر دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہیں

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے