ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہم سب پریشان ہیں لیکن ہم انسان اپنے لیے زیادہ پریشان ہیں جبکہ چرند پرند بھی اِس تبدیلی سے اتنے ہی متاثر ہو رہے ہیں۔ اگر کوئی اس حوالے سے اپنے اردگرد کا جائزہ لے تو وہ دیگر جانداروں کو بھی ماحول میں ہونے والی اِن تبدیلیوں سے پریشان پائے گا۔ اس سلسلے میں میں اپنے دو تازہ ترین ذاتی مشاہدات تحریر کررہا ہوں۔ اسلام آباد کے ماحول میں مجھے برس ہا برس سے ایک چھوٹی چڑیا جوکہ عام چڑیوں سے ذرا مختلف ہوسکتی ہے کی مخصوص آواز گرمیوں کے آغاز یعنی مارچ کے آخری دنوں سے سنائی دیتی تھی۔ یعنی جب تیز دھوپ کے دن آتے یا یوں کہئے گرمیوں میں لوکا موسم آتا تو یہ چڑیا صبح سے ہی سورج کی تیز گرمی کے ساتھ مسلسل چیں چیں کی آواز نکالنا شروع کردیتی اور جب تک سورج کی تپش میں کمی نہ ہوتی یہ چڑیا چپ نہ کرتی۔ میں آپ کو اس چڑیا کی آواز میں تسلسل سمجھانے کے لیے رات کو بولنے والے جھینگر کی مثال دیتا ہوں جو مسلسل آواز نکالتا ہے۔ بالکل ایسے ہی یہ چڑیا صبح سورج کی گرم کرنوں کے ساتھ شروع ہوتی اور دوپہر ڈھلنے تک لگاتار بولتی رہتی۔ اس چڑیا کی چیں چیں والی اتنی لمبی پکار کو سن کر یقین سے کہا جاسکتا تھا کہ اِن دنوں شدید گرمی کے دن ہیں۔ ممکن ہے کہ اس چڑیا کی اس طرح آوازیں نکالنا اس کی افزائش نسل سے تعلق رکھتا ہو۔ اِس برس میں یہ مشاہدہ کررہا ہوں کہ یہ چڑیا پچھلے برسوں کی طرح نہیں بول رہی جبکہ مئی کا مہینہ شروع ہو چکا ہے جوکہ ہماری ہاں تیز دھوپ اور لوکا مہینہ ہوتا ہے۔ اس دفعہ مارچ اپریل اور مئی کے مہینے تک مسلسل بارشیں ہو رہی ہیں۔ پچھلے دنوں جب یہاں ایک آدھ دن کے لیے تیز دھوپ نکلی تو اس چڑیا کی آواز سنائی دی لیکن اس میں پچھلے برسوں جیسی تیزی اور تسلسل نہیں تھا بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ یہ چڑیا ماحول کی اِس تبدیلی سے کنفیوژ ہو رہی ہے کیونکہ ایک دن پہلے بارش تھی اور موسم کچھ سرد تھا اور اب ایک دم تیز دھوپ والا دن نکل آیا ہے۔ یہ چڑیا اچانک نکل آنے والی تیز دھوپ میں اپنے فطری تقاضے کے تحت بول تو رہی تھی لیکن اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ چڑیا کی اِس کنفیوژن کو میں اس طرح سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ کوئی معصوم بچہ بازار میں اپنے بڑوں سے بچھڑ جائے تو وہ کبھی اِدھر جاتا ہے اور کبھی اُدھر، کبھی وہ پریشان ہوکر اردگرد دیکھتا ہے اور کبھی رونا شروع کردیتا ہے یا سمندری سفر کے حوالے سے ایک مثال دیتا ہوں کہ جب کسی بحری جہاز کی مشینری مکمل بند ہو جائے تو وہ بحری جہاز سمندر کی لہروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ لہریں اس کو کبھی دائیں کبھی بائیں کبھی سامنے اور کبھی پیچھے لے جاتی ہیں۔ سمندری جہاز کی اس حالت کو ڈرفٹنگ کہا جاتا ہے اور ڈرفٹنگ کرتے بحری جہاز کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ جہاز پوری طرح کنفیوژ ہے اور اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کرے۔ کسی معاملے کو سمجھ نہ پانے اور کنفیوژن جیسی نفسیاتی صورتحال کو پنجابی میں ”بونترا“ ہوا کہتے ہیں۔ شدید گرمیوں کے دنوں میں مسلسل بولنے والی یہ چڑیا جب ایک آدھ دن کی دھوپ میں بولی تو مجھے لگا کہ یہ چڑیا ڈرفٹنگ کرتے بحری جہاز کی طرح کنفیوژ تھی یا بازار میں کھو جانے والے معصوم بچے کی طرح پریشان تھی اور ”بونتری“ ہوئی تھی۔ اس چڑیا کی آواز میں وہ باقاعدگی بھی نہیں تھی، وہ تیزی بھی نہیں تھی اور وہ راگ بھی نہیں تھا۔ وہ کبھی رک کر بولتی، کبھی مسلسل بولنے کی کوشش کرتی، کبھی اپنی پرانی اونچی آواز لگاتی مگر ایک دم اس کی آواز مدھم ہو جاتی۔ دیکھا جائے تو ماحولیاتی تبدیلی نے اس ننھی چڑیا پر جو اثر کیا ہے وہ تشویش کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ اگر اس چڑیا کی افزائش نسل کا تعلق گرمیوں کے دنوں سے ہے تو وہ دن اِس مرتبہ اِن چڑیوں کو ویسے مل نہیں رہے اور اگر یہ سلسلہ آئندہ برسوں میں بھی جاری رہا تو ہو سکتا ہے ایسی چڑیوں کی نسل ہی ناپید ہو جائے۔ میرا دوسرا ذاتی مشاہدہ پیلے رنگ والی بھِڑ کے حوالے سے ہے جو ہمارے گھروں، عمارتوں یا درختوں میں اپنے چھتے بناتی ہیں۔ اب تک مشاہدے میں یہی تھا کہ یہ پیلی بھِڑیں عموماً گرمیوں کے آغاز یعنی مارچ کے آخر میں اپنے چھتے بنانا شروع کرتیں، اپریل میں ان چھتوں کا سائز بڑا کرکے افزائش نسل کرتیں اور مئی کے لوکے مہینے میں پوری مستی میں ہوتیں۔ اگر اُس وقت کوئی ان کے چھتوں کے قریب جاتا تو یہ بھِڑیں اُس کے پاس سے خاص آواز نکالتے ہوئے تیزی سے اڑتی ہوئی گزرتیں۔ گویا اُس نزدیک آنے والے پر حملہ کردیں گی اور بعض اوقات یہ ڈنگ بھی مار دیتیں۔ میں اِن پیلی بھِڑوں کے حوالے سے پچھلے تمام برسوں میں یہی انتظام کرتا آیا تھا کہ جونہی مارچ کے آخر میں یہ بھِڑیں اپنے چھتے میرے گھر کے کسی کونے میں بنانا شرو ع کرتیں تو میں ان کا سدباب کرتا تاکہ بھِڑوں کی زیادہ تعداد سے محفوظ رہا جاسکے لیکن اِس برس مئی کے مہینے تک میں باوجود کوشش کے اپنے گھر کے اردگرد بھِڑوں کے بڑے یا تعداد میں زیادہ چھتے تلاش نہ کرسکا۔ غور کیا تو یہی سمجھ آئی کہ یہ بھِڑیں گرمیوں کے آغاز میں اپنا کام شروع کرتی ہیں لیکن اس مرتبہ تو مئی کے پہلے ہفتے تک اسلام آباد میں بارشیں ہو رہی ہیں اور اصل گرمیوں کا موسم تو اب تک آیا ہی نہیں۔ گویا لگتا ہے ان پیلی بھِڑوں کو بھی ماحولیاتی تبدیلی نے متاثر کیا ہے۔ اگر کچھ عرصہ مزید ایسے ہی رہا تو ہوسکتا ہے کہ ان بھِڑوں کی افزائش نسل میں بھی مسائل پیدا ہو جائیں۔ ہم انسان کتنے خودغرض اور بے رحم ہیں۔ ہم اپنے کیے ہوئے کاموں سے خود متاثر ہوں تو بات سمجھ آتی ہے کہ یہ ہمارے ہی قصور تھے لیکن ہمارے کرتوتوں سے دوسرے جاندار متاثر ہوں تو بات سمجھ نہیں آتی کیونکہ اُن بے چاروں کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ ہم انسانوں کے ظلم کی داستانوں میں یہ بھی لکھا جانا چاہئے کہ ہم نے چڑیا اور بھِڑوں کے بچے بھی مار دیئے اور یوں اُن بے زبانوں کی نسل کشی کی۔