محترم قارئین، ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے مختلف خطوں کی قوموں اور شہروں میں تنازعات عروج پر ہیں اور قومیں اضطراب اور انتشار کا شکار ہیں، اس مسئلے کی بنیادی وجہ وہ جہالت ہے جو ہمارے ہاں ہر دور میں پائی جاتی ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں ہم ریاست کی ساکھ اور زندگی کے دیگر مقابلوں کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم خصوصاً پشتون تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں نہیں ہیں، اس لیے مغرب والے یعنی یہود و نصاریٰ ہمیں سیاست میں متاثر کر رہے ہیں، کاروبار اور زندگی کے دوسرے پہلو میں ہم پیچھے ہیں۔ زندگی کے دیگرمیدانوں میں ہم سے کھیلتے ہیں اور اپنےآپس میں اختلافات کا شکار ہونا،جو بڑی سے بڑی المیہ ہےایک دوسرے کی توہین کرنا اور عالمی سیاست میں باقی رہنا،ہمارے اقوام کی مقدر بناہے اور زوال بھی اس نقطےسے شروع ہواہے جب کبھی کبھی کوئی عالمی سرخی یا کوئی ناخوشگوار واقعہ عالمی سطح پررونما ہو جاتا ہے تو یک دم ہم اپنے لاعلمی کی دنیا میں ڈوب کر جزبات سےکام لیتے ہی جس کی وجہ سے ہمارےمذہبی اور قومی اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہم علوم اور حقیقی معلومات سے بے خبرہوتے ہیں -سیاسی میدان میں مفادات کی خاطر دل سے کام کرتے ہیں اور نئی نسل کے دلوں اور دماغوں تعصب اور حسد سے بھرنا، ہم یہ کام کسی بہتر مستقبل یا بہتر کل کے لیے نہیں کر رہے اور نہ ہی دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔اسکی واضح مثال ہےکہ جب امریکہ افغانستان میں تھا۔ وہ مجاہد ملا محمد عمر اور شیخ اسامہ بن لادن کی تلاش میں تھا لیکن امریکہ بین الاقوامی شخصیات کو اپنی گرفت میں نہیں لا سکا۔حیرت کی بات یہ تھی کہ اس شخص ملامحمدعمر نے واقعی اپنی پوری زندگی افغانستان کے مظلوم عوام کے لیے وقف کر دی تھی۔تحقیق اور رپورٹس بنی اور شائع کی گئیں کہ ملامحمدعمر یہاں افغانستان میں امریکی ائیربیس کے نزدیک ہی کسی ویراں گھر میں رہتے تھے لیکن شیخ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور قتل تاحال شکوک و شبہات کا شکار ہے۔بگرام سےآپریشن کرنے کے لیے امریکی فورسسزرات گئے پاکستانی شہر ایبٹ آباد پہنچے اور اپریشن کرکے شیخ اسامہ کو شہید کرکے واپس چلے گئے۔جب شیخ اسامہ کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی۔ دنیا حیران رہ گئی کہ امریکہ کے اتنا بڑا دشمن جسکو رات گئے اپریشن میں مارا اور سمندر میں پھینک کر کہانی ختم کردی فوجی آپریشن کرنا اس کی مثال کچھ یو ہے کسی نے کہا کہ میں ایبٹ آباد سے بگرام یا بگرام سے ایبٹ آبادکو آدھے منٹ میں پیدل چلا گیا اور لوگ آئے اور بگرام سے ایبٹ آباد چلے گئے۔اگر ہوائی سفر میں وقت کا اندازہ لگایا جائیں تو پتہ لگ جاتاہے کہ بگرام سے ایبٹ آباد تک جانا اپریشن کرنا اور پھر واپس بگرام آنا پریس کانفرنس کرنا جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ ان دوشہروں کے درمیان ہوائی سفر کرنے کے ٹائم سے اندازہ لگتا ہے۔ کہ اتنے کم وقت میں یہ سب کچھ ناممکن ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والا ملک ہے کیونکہ امریکہ بگرام سے ایبٹ آباد تک فوجی آپریشن کرتا ہے اور پھر ایک منٹ میں بین الاقوامی میڈیا پر نشر کرتا ہے، اس لئے میں کہوں گا کہ امریکہ جھوٹ بولتا ہے۔ پاکستانی عوام پر صرف یہ واضح کیا گیا تھا کہ شیخ اسامہ بن لادن پاکستان کی مدد سے افغانستان میں مداخلت کر رہے تھے اور پاکستان اسے تربیت دے رہا تھا۔ امریکہ صرف اپنے عوام کی خاطر تین منٹ کاکام ایک منٹ میں کیایہ ایک منٹ میں چار منٹ کاکام جھوٹ کےعلاوہ اور کچھ نہیں ہے۔جو کہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔اسامہ بن لادن 2006میں گردے کی بیماری کی تشخیص ہوئی اور اسی بیماری سے وہ بقضائے الہی سے وہ انتقال کرگئے۔دوسری بات افغانستان میں امریکہ کی آخری لمحات میں ایک افغان جنرل عبدالرازق کی موت واقع ہوئی۔ بین الاقوامی میڈیا میں بہت بڑا تنازعہ،اور شورشرابا بنی اور دنیا والوں نے بات دوسری طرف کرکے پھیلایا گیا کہ امریکہ اور اشرف غنی کے اتحادی حکومت میں طالبان کے اپنے جاسوس ہیں اور وہ ایسی کارروائی کر رہے ہیں، اگر یہ حملہ واقعی طالبان کے سپاہی نے کیا تھا تو پھر جنرل عبدالرازق اور کاسٹ میلرمیں کیا فرق رہ گیا؟ ملر بھی طالبان کا دشمن تھا اور جنرل عبدالرازق بھی تھےاس دن امریکی اور افغان فورسز کی مشترکہ کانفرنس تھی اور ملاقات کے دوران عبدالرازق اور کاسٹ ملر کے درمیان تلخ جھگڑا شروع ہو گیا، اور تاحال وہ کانفرس کی ریکارڈنگ محفوظ ہے منظرعام پر نہیں لایا گیا ہےاور جنرل رازق پر حملہ کے فوراً بعد امریکی فورسسز نے ہوائی فائرنگ شروع کیا اور جائے وقوع سے تحقیقی نشانات کو نمٹایاگیا کہ کل تحقیق اور تفتیش میں اشارہ ہمارے طرف مبذول نہ ہوجائیں کہ تحقیقات میں کوئی بھی ہم پر الزام نہیں لگائے گا۔ آپ اپنے منصوبے کے مطابق اس قتل کو انجام دے سکتے ہیں۔اب بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان نے ایک فوجی کو قتل کیا ہے لیکن امریکہ جیسا اصل دشمن اس پر انگلیاں نہیں اٹھا رہا ہے۔اس نے ایسا کیوں کیا اور کیسے کیا؟تیسری بات امریکہ کے ایک لکھاری نے اپنے کتاب میں لکھا تھا جو 2008 میں پبلش کیا تھا کہ 2020میں ایک نئی بیماری پھیلے گی اور لاتعداد لوگ اس خوف سے مر جائیں گے، مساجد، مدارس، اسکول کاروبار، حتیٰ کہ بیت اللہ اور مدینہ منورہ بند ہو جائیں گے اور حج روک دیا جائے گا، انسانی اعضاء کو نقصان پہنچے گا اور لوگ ہلاک ہو جائیں گے اور پھر یہ بیماری اچانک پھیل جائے گی۔ ایک لمحے کے لیے دنیا کا نام و نشان مٹ جائے گا اور لوگ اس سے رنجیدہ ہوں گے اور لوگوں پر اس کا برا اثر پڑے گااور کچھ عرصے کے بعد اچانک ختم ہوجائیگی اور مصنف کا کہنا ہے کہ یہ کرونا نامی بیماری یا وباء2030 میں ایک بار پھر رخ کریں گی اور پہلے دفعہ جن لوگوں کو یہ مرض لاحق ہوا ہو وہ دوبارہ اسے برداشت نہیں کر سکیں گے۔ اس بار، تو وہ سب مر جائیں گے، اسی لیے میں آپ کو بتاتا ہوں، ہمیں معلوم نہیں کہ امریکہ کھلے عام کتابیں شائع کر رہا ہے اور ایک نئی دنیا بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک امریکی صحافی کی اس کتاب کا صفحہ اگر کوئی چاہے تو میرے پاس ہے، اس کتاب میں وہ 2030 اور کورونا کی واپسی کا اعلان کر رہے ہیں۔ چوتھے نمبر پر، میرا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمت و دانائی کے بغیر نقصان نہیں پہنچاتا۔ گزشتہ دنوں میں افغانستان کے ایک گاؤں میں زلزلہ آیا ہے، جس میں ہزاروں نوجوان اور بوڑھے ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں، اس زلزلے کا نشانہ بننے کے بعد بھی یہ ایک گاؤں تھا، آس پاس کا گاؤں بھی ایسی ہی عمارت ہے، لیکن کیا وہ بھی تباہ ہوگئے؟ زلزلہ کا مرکز کس شہرتھا اور اس زلزلے کی ضد میں کیوں ایک ہی علاقہ آگئی باقی آس پاس علاقے اور عمارات بچ گئے اب افغانستان میں زیرزمیں امریکیوں نے بہت کچھ بارود جیسے مواد رکھے گئے ہیں اور اپنے مرضی کے مطابق ہوا سے نشانہ بناتے ہی نسل کشی کرتے ہیں اس لیے اس نے قوموں کے درمیان جنگ شروع کر دی ہے اسے عالمی مفسدین کہتے ہیں جنہوں نے دنیا پر قبضہ کر رکھا ہے اور اپنے مفادات کی تلاش میں ہیں۔اور مسلم امہ کیخلاف مختلف قسم کے حربے استعمال کرتی رہی ہے جدید اسلحے سے لیس اور ڈالرز کی دنیا میں مست وحشی قوم اب بھی ہمارے نسل کشی اور وطن بربادی سے باز نہیں آتا ہے ۔