Home / Home / سانحہ پشاور ۔۔۔ تحریر : عائشہ صفدر (فیصل آباد)

سانحہ پشاور ۔۔۔ تحریر : عائشہ صفدر (فیصل آباد)

بہادر پھولوں کے مقابل ظالم درندوں نے ایسا قصہ رقم کیا، کہ جسے تاریک اور وہ مائیں جنہوں نے اپنے لال کھوئے ہیں کبھی فراموش ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر تاریخ میں فاتح شہدا پا گئے۔

ہزاروں ظلم سے، جام شہادت کا رتبہ
بازی بھی وہی پا گئے
کم ظرف، کم ہمت اکھاڑنے کی حوس میں
ذلالت لا دریچہ نام پا گئے

16 دسمبر 2014 میں تاریخ عالم کا ایک تاریک نامہ صفحہ ہستی پر غم چھوڑ گیا۔ ایک ہولناک غم بھرے دن کا سورج اپنے معمول کے مطابق طلوع ہوا۔ مگر روشنی پھیلانے کی بجائے غم کے آثارکی کرنیں دنیا بھر میں بکھیر گیا۔ جی ہاں تاریکی کا وہ دن جس میں
سینکڑوں چہرے ہمارے ذہن میں گردش کرتے ہیں جن کے دیدار کو نجانے کتنی مائیں بہنیں، باپ اور بھائی ترستے ہیں۔ وہ کل کی روشنائی اپنے چہروں پر سے دبا کر مٹی کی چادر اوڑھ کر ہم سے کوسوں دور جاچکے ہیں۔ کہ واپس لوٹنے کا تصور بھی نہیں۔
تاریک دن کی صبح کا آغاذ معمول کے مطابق شروع ہوا۔
مائیں اپنے پھولوں کو مزید مستقبل نکھارنے کی کوششوں میں صبح کے تڑکے ان کی خدمتوں نخروں میں مصروف تھیں کہ اس بڑے حادثے کا وہم و گمان نہ تھا۔ کہ وہ اپنے پھولوں کو شہادت کے اعلیٰ جامع مستقبل رتبے پر فائز کرنے کے لیے گہماگہمی میں تیاری کر رہی تھی۔ بچے معمولاً اپنی تیاری کے ساتھ سکولوں کو روانہ ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ اے پی ایس کے استاذہ، اورتمام اشخاص جو ادارے کے تمام مبمرین کسی نہ کسی فرائض پر ذمہ داریوں کے عہدے نباہ رہے، معمول کے مطابق افراتفری کی صبح کی روشنی کے ساتھ ان عہدوں کو نبانے کے لیے روا دوا تھے۔
دس بجے کے قریب تقریباً چوتھا لیکچر شروع ہوا۔ سکول کے ہال میں بچوں کو فرسٹ ایڈ کے بارے آگاہی دی جا رہی تھی، کہ اچانک گولیوں کے چلنے کی آواز سنائی دی اور اسی خوف پہ مبنی چیخ وپکار بلند آوازوں سے ہال گونجنے لگا۔ دہشتگردوں نے پہ در پہ حملہ آوری کی۔ اور راستے میں رکاوٹ بنے ہر پھول کو خون میں لبریز کیا۔ وطن کی یہ عظیم جانیں ڈٹ کر سامنے مقابلہ کرتی رہیں کیونکہ وہ عظمت بھری جوان نسلوں کے آگے بہت کم ظرف درندے تھے جو علم کی روشنی کی شمع ان کے دلوں سے مٹانے آئے تھے
افراتفری کے اس سماء میں ننھے پھولوں کی عجب بہادری و شجاعت کا عالم تھا کہ دشمنانِ قلم اپنے اوزاروں کے خوف سے علم کی آواز پست کرنا چاہتے تھے مگر وہ میرے پھولوں کو شہادت کا جام پلا کر بھی بے فیض لوٹے۔
اس عہدے پر جوق در جوق بچے تو نشانہ وار تھے ہی، درندوں نے ان استاذوں، چوکیدار نیز ان کے رستے میں ہر کوئی ان کے ظلم کی لپیٹ میں تھا۔ قدرت کو یہی منظور تھا۔ مائیں دروازے تکتی رہ گئی مگر بچے نہ لوٹے، وہ قابل قدر ممبرین جو اپنی ذمہ داریوں کے فرائض ادا کرتے جام شہادت پا گئے، جانے کتنے عزیزوں کو چھوڑ گئے۔ جو آج بھی ان کی راہیں تکتے ہیں، مگر جانیں والے کہاں لوٹتے ہیں۔

ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے

دعا ہے الله ہمارے شہداء کے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، اور جانیں جو اپنی قومیت کا ثبوت دیتے ، عہدوں کو نباتے اپنے پیاروں کو چھوڑ گئی سب کے پیاروں کو حوصلہ عطا کرے اور اجر عظیم سے نوازے ، اور ہمیں بھی ان کے اس عظیم رتبہ سے پر نور فرمائیں۔
جیسا قرآن میں شہید کی رفعت و عصمت کا ذکر ہے، اور قرآن میں نام ہے تو تمام تر باقی رہے گا۔۔۔

آمین

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

وزارت اوورسیز کے فوکل پرسن اکرام الدین کی ایم پی اے حاجی فضل الٰہی سے ملاقات۔

ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال،اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل و مشکلات اور دیگر امور پر تبادلہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے