جو قلم اٹھائی اس نے
جذبات کی لو جلائی اس نے
کبھی تو جوڑا اللہ سے
کبھی دنیا دکھائی اس نے
چن کر موتی لفظوں کے
اک محفل جمائی اس نے
لکھاری لفظوں کی دنیا کا بے تاج بادشاہ۔جو لفظوں کو موتیوں کی طرح لڑی میں پرو کر لازوال داستانیں رقم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جو عام سے منظر کو خاص کر دیتا ہے جو اندھیروں میں روشنی کی کرن بن جاتا ہے۔کبھی اپنی شعلہ بیانی سے روح کی گہرائیوں تک اوتر جاتا ہے۔وہ انسانی جذبوں کو یوں بیان کرتا ہے کہ پڑھنے والے کو اپنے احساسات کا ترجمان محسوس ہوتا ہے۔لکھاری اک مسیحا ہے ۔جو جذبات پر لگی چوٹ پر مرہم کا کام جانتا ہے۔کبھی محبتوں کے گلاب لکھتا ہے تو کبھی ہجر کے عذاب۔کہیں وہ دنیا کے ناگوار چہروں سے پردہ اٹھتا ہے تو کہیں محبتوں کی مورت سے متعارف کراتا ہے۔میری نظر میں لکھاری بنا کوئی پیشہ نہیں بلکہ یہ ایک مسیحائی کا ہنر ہے۔ایک ایسا ہنر جس سے لوگوں کی زندگیاں بدل دی جاتی ہیں انہوں مایوس کے اندھیروں سے نکل کر روشنی کی طرف گامزن کرتے ہیں ۔الفاظ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں ۔لکھاری کی سوچ جتنی پاکیزہ ہوتی ہے اس کے الفاظ اتنے ہی اثر پذیر ہوتے ہیں۔
لکھاری کی قلم تہذیب کی پاسبانی کرتی ہے ۔لکھاری کسی معاشرے کا ایسا سرمایہ ہوتے ہیں جو معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ معاشرے کی ہر اچھائی اور برائی کو منظر عام پر لاتے ہیں۔اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میرے خیال میں لکھاری اک ایسا انسان ہے جس کی اپنی دنیا ہوتی ہے لفظوں کی دنیا، جس میں سے وہ لفظوں کو گوہر نایاب کی طرح دنیا کو عطاء کرتا ہے۔لکھاری معاشرے کے قابل اور احساس انسان ہوتے ہیں۔
Tags Dr.Ghulam Murtaza سپنا اویس