وقت ریت کی مانند ہاتھ سے پھسل رہا ہے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا کہ کیا کیا جائے اور کیا نہیں۔ آفتاب ہر صبح طلوع ہوتا ہے اور ہر شام غروب بھی ہو جاتا ہے۔ ایسے میں انسان کچھ بھی کر لے وقت تھم نہیں سکتا ہے۔ خوشی کے لمحات میں انسان یہ سوچتا ہے کہ کاش یہ وقت یہاں پر ہی تھم جائے مگر وہ لمحات بھی گزر ہی جاتے ہیں۔ اور جب غم کا وقت آتا ہے تو انسان خود کو یہ تسلی دیتا ہے کہ جب اچھا وقت گزر گیا تھا تو یہ بھی گزر ہی جائے گا۔
اسی طرح اکثر لوگ اس بات کا شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ غم کے لمحے دیر سے گزرتے ہیں۔ میرے خیال سے یہ بات درست نہیں کیوں کہ وقت ہمیشہ اپنی مخصوص رفتار سے ہی گزرتا ہے پھر چاہے کوئی خوشی ہو یا غم۔ دراصل غم کے وقت انسان دکھ کو اپنے سر پر سوار کر لیتا ہے اور اس سے باہر ہی نہیں آنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ نا چاہتے ہوے بھی غم کو اپنے وجود پر مسلط کر لیتا ہے۔ ایسے میں اسے ہر گزرتا لمحہ طویل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ
نا جانے یہ غم کب تک میرے ساتھ رہے گا میں اسے کب بھولوں گا۔ درحقیقت وہ اسے بھولنے کی کوشش میں اور تازہ کرتا چلا جاتا ہے اور خود کو غم کی ایک اذیت ناک دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔
اس کے برعکس خوشی کے وقت انسان کو اپنی ہوش بھی نہیں ہوتی کیوں کہ وہ ان لمحات میں زندگی کو بھرپور جی رہا ہوتا ہے۔ وہ اس خوشی کو محسوس کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اسے اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اسے خوشی دے رہا ہوتا ہے۔ ان سب میں اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا اور آخر میں وہ صرف اتنا کہتا ہے کہ پتا ہی نہیں چلا کیسے اتنی جلدی اچھا وقت گزر بھی گیا۔
بات دراصل اتنی سی ہے کہ جب ہم کسی چیز کو اپنے اوپر حاوی کر لیتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ لہذا وقت وقت کی اس پکار سے باہر نکل آیئے۔ اگر آپ ایسے ہی وقت کے جلدی سے گزر جانے کا شکوہ کرتے رہیں گے تو آپ زندگی کے کسی بھی لمحے سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے کیوں کہ وقت ریت کی مانند آپ کے ہاتھوں سے پھیسل جائے گا اور پھر آپ خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔ وقت نا کبھی کسی کے لیے رکا ہے اور نا کبھی رکے گا۔ خدارا وقت کے اس حساب کتاب سے بالاتر ہو کر زندگی کو جینا شروع کیجئے۔
بقول شاعر:
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
Tags Dr.Ghulam Murtaza پاکستان عاکفہ وحید