چیچہ وطنی سے مقصود احمد سندھو کی تحریر
ادب کی دنیا کا روشن ستارہ ۔۔۔ ڈاکٹر شاہد رضوان کی کتابوں پر تبصرہ
ادب کی دنیا کے بلند قامت میناروں اور قد آور شخصیات کے درمیان خود کو منوانا ہمیشہ ہی جوئے شیر لانے کے مترادف رہا ہے جس کے لیے ادیب کو خون جگر جلا کر مسلسل اوربے تکان محنت کرنا پڑتی ہے ایسا ہی ایک جہد مسلسل کا استعارہ ایک ابھرتا ہوا ستارہ ڈاکٹر شاہد رضوان ادبی دنیا میں اپنی جگہ بنا رہا ہے جسے ادبی پنڈت گنجی بار کے خطے میں چھوٹے شہر کا بڑا ادیب قرار دے رہے ہیں سات کتب کے اس مصنف کی مطبوعہ تصانیف افسانوں کے چار مجموعے آوازیں، پہلا آدمی، ادھوری کہانی کی تصویراور پتھر کی عورت ہیں گنجی بار کے نام سے ایک ناول شوق نا تمام کے نام سے ایک شعری مجموعہ اور انشائیوں پر مشتمل کتاب کا نام اک حرف کہ کہیں جیم جسے ہے افسانہ کہانی کہنے کا فن کہلاتا ہے ناول نگار اور افسانہ نگار ڈاکٹر شاہد اس فن میں طاق نظر آتے ہیں انھوں نے جس باریک بینی، چابکدستی اور ہنر مندی سے الفاظ کے نگینے جڑ کر اپنی تحریروں کا تاج محل تعمیر کیا ہے یہ انہی کا خاصہ ہے کہ انھوں نے ثقیل اور بھاری الفاظ استعمال کرنے کی بجائے عام فہم اور سادہ طرز بیاں اپنا کر اپنا مدعا بیان کیا ہے ان کی تحریروں میں زندگی کے مختلف رنگ اپنی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہیں ان کی کہانیاں ستاروں کی طرح روشن شبنم کے موتیوں کے جیسے چمکتے نگینہ صفت الفاظ پر مشتمل ہیں خاص بات یہ ہے کہ شاہد کے یہ الفاظ اور کردار گونگے بہرے نہیں ہیں ان کے تخلیق کردہ کردارنہ صرف قاری کے دکھ سکھ میں سانجھ نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ ایک طویل مدت تک اسے اپنے حصار میں جکڑے رکھتے ہیں اسے کبھی اپنی الجھنوں کی گتھیاں سلجھتی نظر آتی ہیں تو کبھی وہ خود کو بھول بھلیوں میں گم پاتا ہے اور کبھی تصوروں میں محبت کی اٹکھیلیاں کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے کبھی اسے اپنا وجود جدائی کے عذاب کی صلیب پہ مصلوب نظر آتا ہے ان کے کردار کہیں پارسائی اور پاکیزگی کے دعوے دار ہیں تو کہیں شیطان کے مکرو فریب سے بنے ہوئے لبادوں میں نظر آتے ہیں ایک لمحے کو رومانوی انداز دکھائی دیتا ہے تو دوسرے ہی لمحے وہاں حسد اور نفرت کے سانپ پھنکارتے نظر آتے ہیں جہاں قاری لمحہ بھر کو ریشمی جذبات سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے وہیں اس سے اگلی ہی ساعتوں میں وہ خود کو شیطانی سحرکے خیالات میں جکڑا ہوا پاتا ہے پڑھنے والا پڑھتے پڑھتے کبھی پتھر کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے تو کبھی خود کو جنگ آزادی کے مجاہدوں کے ساتھ آزادی کے نعرے لگاتا اور ترانے گاتا ہوئے محسوس کرتا ہے پھر اچانک خود کو تھل اور روہی کے تپتے ہوئے صحراؤں اور پیاسے ریگزاروں میں آبلہ پا چلتے چلتے تھکن سے چور ہوکر گرتے ہوئے پاتا ہے جہاں صحرائی شکاریوں کے خیموں سے ان کی سفاکی کا شکار فاختاؤں کی کربناک چیخیں اسے جنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں لمحہ لمحہ بدلتی کیفیات قاری کو مسحور اور اپنے حصار میں جکڑے رکھتی ہیں ہڑپائی تمدن کے فرزند ڈاکٹر شاہد رضوان ناول نگاری، افسانہ نگاری اور انشائیہ پردازی میں یکساں مہارت رکھتے ہیں انھوں نے بنی آدم کی نفسیاتی کشمکش، اطمینان اور بے اطمینانی، قرار اور بے قراری، آسودگی اور نا آسودگی کی کیفیات اور نظریات کے تصادم کو بہت احسن طریقے سے واضح کیا ہے۔ شاہد رضوان کی تحریریں بتاتی ہیں کہ دھن، دولت، سیاست اور معاشرے کے شعبدہ باز کس طرح اپنے چاہنے والوں اور متاثرین کی خواہشات کو ابھار کر اپنے مقاصد کے حصول کے بعد انھیں دفنانے کا سفر کس مہارت سے مکمل کرتے ہیں پرو فیسر ڈاکٹر شاہد رضوان نے اگر ایک طرف استحصال کی ماری ہوئی کسمپرسی کا شکار عوام کو سراب سے نکالنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف معاشرتی ٹھیکیداروں کے مکرو فریب کا پردہ چاک کرتے ہوئے انھیں آئینہ دکھایا ہے ان کی تصانیف میں اگر آئیڈل ازم ملتا ہے تو شر اور خیر کا تصادم بھی پایا جاتا ہے ان کے ہاں ماورائی کرداروں کی بجائے حقیقت پسندی کا عنصر نمایاں ہے ان کے مضامین میں انسانی مصائب کے نوحے اور خوشی کے ترانوں کے ساتھ ساتھ مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کو امید کی کرنیں آس کی ڈوریوں سے بندھی نظر آتی ہیں سسکیاں آہیں، ناتوانی اور طاقت کا امتزاج بھی پایا جاتا ہے جہاں محبت اور نفرت کے کردار نظر آتے ہیں وہیں بدلے اور حسد کے الاؤ روشن ہیں صادق جذبوں، ریاکاری مکر و فریب جیسی عادات کے حامل کرداروں کے علاوہ کردار نگاری تفاوت انسانی، رسم و رواج اور ثقافتی رعنایاں بھی نظر آتی ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے کردار محبت نفرت محنت لگن اور رنجشوں کے رنگ کی مٹی سے گوندھ کر تخلیق کئے ہیں۔ ڈاکڑ شاہد رضوان نے جو عنوان باندھے ہیں ان میں سے دکھ درد اُمید مسرت اور رشتوں کی خوشبو اور بھاپ اٹھتی محسوس ہوتی ہے ان موضوعات پر ایک حساس دل رکھنے والا معاشرتی روایات سے واقف حالات کا نبض شناش شخص ہی قلم اٹھا سکتا ہے تا ہم اگروہ ماضی اور حال کی منظر کشی کے ساتھ مسقبل کے خدوخال کا نقشہ بھی پیش کریں تو ان کی تخلیقات مزید جاندار ہو جائیں گی اور قاری کے ساتھ رشتہ مزید مضبوط ہو سکتا ہے۔
َََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔