کتنا خوبصورت ہوتا ہے نہ یہ محبت کا رشتہ جو ہمارا اپنوں کے ساتھ ہوتا ہے جس میں ہر وقت ایک دوسرے کی فکر رہتی ہے۔ہر لمحہ اپنوں کےلئے عافیت کی دعائیں کی جاتی ہیں۔والدین ہوں،بہن بھائی ہوں یا دوست ہمیں سب سے بہت محبت ہوتی ہے اور اس کا اظہار کرنے کےلئے موقع ملتے ہی شروع ہوجاتے ہیں۔اور یہ اظہار ضروری بھی ہوتا ہے کیونکہ جب آپ کسی کو بتائیں گے نھیں تو آپ کا یقین نھیں کرے گا کہ آپ کو ان سے کتنی محبت ہے یہاں تک کہ آپ کے دوست بھی نھیں۔اسی لیے تو دوستوں سے بات چیت کی جاتی ہے ان کو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں ےتاکہ ان کو محسوس کروایا جاسکے ان کا ہماری زندگی میں کیا مقام ہے۔ یہ سب اپنی جگہ درست ہے لیکن ایک اہم چیز، ایک اہم محبت، ایک اہم اظہار جس کا کبھی خیال ہی نھیں آیا پتہ ہے کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کا اظہار۔کہنے کو تو سب ہی کہتے ہیں کہ ہمیں اللہ سے محبت ہے لیکن جب اظہار کی باری آتی ہے تو تب ساری محبت کہاں چلی جاتی ہے؟دوستوں کی خوشی کےلئے ان کے سامنے خود کو مخلص ثابت کرنے کےلئے تو میلوں کا سفر کر کے ان کی ایک پکار پر ان تک پہنچ جاتے ہیں تو جب اللہ تعالٰی دن میں پانچ دفعہ پکارتے ہیں تب کیوں نھیں ہوتا اظہارِ محبت؟ تب کیوں اپنے بستر سے یا اپنے کام کو چھوڑ کر جائے نماز تک کا سفر طے نھیں ہوتا؟تب محبت کے سارے جذبے ماند کیوں پڑجاتے ہیں؟ انسانوں کےلئے رات بھر جاگ سکتے ہیں جب اللہ تعالٰی کہتے ہیں کہ میری محبت میں رات کے پچھلے پہر اٹھ کر مجھ سے باتیں کروں تو تب کیوں نھیں آنکھ کھلتی؟ہر روز فضولیات میں کس قدر رقم خرچ کرتے ہیں لیکن جب اللہ تعالٰی کہتے ہیں مجھے قرضِ حسنہ دو تو کیوں جیبوں کو ٹٹولنے لگ جاتے ہیں کہ چند سکے مل جائیں تو وہ دے دیں؟کیا یہی محبت ہے؟ اسے کہتے ہیں محبت کرنا اور اس کا اظہار کرنا؟ جو انسان اپنے بنانے والے سے وفا نہ کر سکے وہ دوسروں کے ساتھ کیسے مخلص ہوسکتا ہے۔پہلے محبت کا حق،وفا کا حق خالقِ کائنات کا ہے۔اس کی محبت کو اولین ترجیح دیں باقی ساری محبتیں اور چاہتیں وہ خود دے دے گا۔وہ ذات اتنی عظیم ہے کہ انسان کی محبت کو کبھی رائیگاں نھیں جانے دیتی۔تو پھر محبت کرنی ہے تو خدا سے کریں اظہار کرنا ہے تو الہ سے کریں وفا کرنی ہے تو اس بادشاہ سے کریں جہاں کبھی خسارہ نھیں ہوگا نہ منہ پہ مارا جائے گا۔آج ترجیحات بدل لیں زندگی خودبخود بدلنا شروع ہوجائے گی۔زندگی میں ایسا سکون اور اطمینان آئے گا. اِن شاء اللہ کہ آپ خود بھی حیران رہ جائیں گے۔کیوں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ بندہ خالق سے محبت کرے اور وہ اس کو محبت سے جواب نہ دے؟دیر تو انسان ہی کرتا ہے رحمان تو دوڑ کر تھامتا ہے۔ آجاؤ اپنے رب کی طرف۔لوٹ آؤ ورنہ ایک دن اس کی طرف لوٹنا تو ہے ہی، چاہے خوشی یا ناخوشی سے۔
Tags Dr.Ghulam Murtaza آمنہّ علی