16 دسمبر 2014 روز کی طرح وہ ننھی کلیاں اپنی مسکراہٹیں بکھیرتے، صبح صبح سارا گھر سر پر اُٹھائے، اپنے روشن مستقبل کی اُمنگوں کو دل میں سجائے سکول کے لیے تیار ہوئے۔ ماں کی دعائیں لے کر رخصت یہ لختِ جگر اپنے سفر پر گامزن ہوئے تو کبھی لوٹ کر نہ آئے ۔ پشاور میں واقع وارسک روڈ پرآرمی پبلک سکول جو کہ دنیا کا چوتھا بڑا سکول مانا جاتا ہے۔ اس کو منگل کے دن سیاہ کپڑوں میں ملبوس چھ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔
تقریباً10.30بجے کے قریب پچھلے دروازے سےسکول میں داخل ہوئے۔ سکیورٹی پر معمور افراد کی توجہ ہٹانے کے لیے دہشت گردوں نے اپنی گاڑی بم سے اُڑا دی۔ چوتھا پیریڈ جاری تھا۔ بچوں کو فرسٹ ایڈ کے متعلق معلومات دی جا رہی تھی کہ سارا سکول گولیوں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ جن میں خود کش بمبار بھی شامل تھے۔ سکول انتظامیہ نے بچوں کو اسمبلی ہال میں جمع کیا۔ سرنیچے کرا کے بیٹھا دیا کمروں میں بند کر دیا ۔ مگر یہ درندے دروازے توڑ کر داخل ہوئےاور گولیوں کی بوچھاڑ کرتے گئے۔ ان کا مشن زیادہ سے زیادہ بچوں کو مارنا تھا ۔
جون میں 10 دہشتگردوں نے ائیرپورٹ پر حملہ کیا 36 افراد شہید ہوئے ۔جس کے نتیجے میں 15 جون کو وزیرستان میں ضربِ عضب شروع ہوا۔ دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جا رہا تھا۔ اے پی ایس حملہ دہشتگردوں کی جانب سےضربِ عضب کی جوابی کارروائی تھی۔ جس کا مقصد بدلہ لینا تھا کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ فوج ان کے گھروں اور بچوں پر حملہ کر رہی ہے اس لیے اے پی ایس حملہ کیا گیا تا کہ پاکستان کے بچوں کو نشانہ بنایا جائے خوف و حراس پھیلایا جائے ضربِ عضب کو روکا جائےاور علم کی شمع بُجھا دی جائے۔
پچھلے دروازے سے بچوں کو نکالنے کی کوشش کی گئی ۔قیامت کا منظر تھا۔ معصوم بچپن موت کی آغوش میں سو گئے ۔ایک ساتھ سینکڑوں گودیں اُجڑ گئی ۔پرنسپل سمیت سٹاف اور 134 بچوں تقریباً 150کے قریب لوگوں کو شہادت نصیب ہوئی ۔100 زخمی اور 960 افراد کو بازیاب کرایا گیا۔
سکول قبرستان کا منظر پیش کر رہا تھا ہر طرف لاشوں کے ڈھیر، بکھری کتابیں، گِرے ڈیسک خون کی ہولی کھیلی گئی۔ سکول جانے والے بچے ماں کو محوِ انتظار چھوڑ کر جنت میں چلے گئے۔ آرمی نے ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ کی قیادت میں سکول کا ہو لڈ سنبھالتے ہوئےان دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ سات کمانڈر زخمی ہوئے۔اس سانحہ کو پاکستان کا نائن الیون قرار دیا گیا۔ہر آنکھ اشکبار تھی 3دن کا یومِ سوگ رکھا گیا۔ پھر وہاں کلیرنس اینڈ سرچ آپریشن کیا گیا اور تمام دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو تباہ و برباد کر دیا۔
اس سانحے نے گھروں کے چراغ بُجھا دیے۔ زخمی افراد ساری زندگی کے لیےمعذور بھی ہوئے ۔یہ سانحہ ان کے دلوں دماغ پر نقش ہو چکا ہے۔ان ننھی کلیوں نے اپنے لہو سے علم کی شمع روشن کر دشمن کو حب الوطنی اور غیور قوم ہونے کا ثبوت دیا ۔ان کا نام پاکستان کی تاریخ میں شامل ہو گیا مگر ان درندوں کا نام اس دنیا سے مٹ گیا ۔ 12 جنوری کو سکول دوبارہ کھولا گیا۔جب جب کوئی لعل اپنے وطن پر قربان ہوگا ہمیں پشاور کے معصوم یاد آئیں گے ہر دسمبر ہمیں آپ کی یاد دلائے گا ۔پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن۔ ہم آپ کو کبھی نہیں بھول سکتے ۔
"ہوا ہے آج پھر سے میرا غمِ دل تازہ
یاد آیا ہے مجھے دسمبر لہو لہو پھر ایک بار”