پچیس دسمبر 1876ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کراچی کے وزیر مینشن میں جنم لیا تو کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ آ گے چل کر برصغیر کے مسلمانوں کا عظیم رہبر بنے گا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا اہل پاکستان پر یہ احسان ہے کہ انہوں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد، خودمختار ریاست کے قیام کے لئے بھر پور جدوجہد کی اور اپنی ساری زندگی اسی جدوجہد میں وقف کردی۔قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم قانون دان، بااصول سیاستدان اور بلند پایہ مدبر تھے۔ ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر متزلزل غرم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔
ہمیں یوم قائد پہ قائد اعظم محمد علی جناح محترمہ فاطمہ جناح علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی طرح کے ان رہنماؤں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے زندگی بھر مسلمانوں کی آزادی کیلئے قربانیاں دیے کر ہمیں انگریزوں و ہندو?ں کی غلامی سے نجات دلوائی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ 18جون 1944ئکو قائداعظم نے فرنیٹئر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ” آزادی وہ مسلم نظریہ ہے جس کو ہم نے اپنانا و اسکی حفاظت کرنا ہے، کیونکہ آزادی ہمارے لئے انمول خزانہ ہے ہمیں امید رکھنا چاہئے کہ تمام شہری ہم سے استفادہ کرینگے ہمیں اپنی منزل کا خود تعین کرنے کیساتھ دنیا کے سامنے ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہوگا جس میں سماجی انصاف و انسانیت کو ترجیح دی جائے ان حالا ت میں ہی ہم اپنی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ ہونے کیساتھ دنیا کو باور کرا سکیں گے کہ ہم امن کے قائل ہیں امن ہی درحقیقت انسانیت کی بہتری ترقی وخوشی کا ضامن ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے انتہائی دلیری کیساتھ انگریزوں و ہندوئں کامقابلہ کرکے گاندھی و نہرو کی چالوں کو ناکام کرتے ہوئے مسلمانوں کو آزادی دلوا کر آزاد پاکستان قائم کیا اقوام عالم کی تاریخ میں قائد اعظم کا یہ بے مثال و حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ قیام پاکستان کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ و تحریک پاکستان کے دیگر رہنماؤں کی حصول پاکستان کیلئے لہو دار قربانیوں کو دیکھتے ہوئے حالات حاضرہ کا اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے حکومتی سیاسی ومعاشرتی رہنماؤں نے قائداعظم و تحریک پاکستان کے دیگر رہنماؤں نے حصول آزادی کی تاریخ ساز قربانیوں کا کہاں تک حق ادا کرکے قائداعظم کے ارشادات کی تکمیل کیلئے اپنے فرائض ادا کئے ہیں؟ اس سوال کی مناسبت سے مقتدر شخصیات و سیاسی رہنما?ں کیساتھ اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے۔ متذکرہ سوال کے جواب میں وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف نے ایک تقریب تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آزادی کا حصول قائد اعظم و تحریک پاکستان کے رہنماؤں کا تاریخ ساز کارنامہ ہے، مگر بدقسمتی سے آزادی کے بعد کے مراحل میں اپنے فرائض کو پورا نہ کیا جاسکا کیونکہ حصول آزادی کے بعد آزادی کا قافلہ منزل پر پہنچا تو ہماری آزادی کے معمار قائد اعظم محمد علی جناح و شہید ملت لیاقت علی خاں زندہ نہ رہے لہذا آزادی کے قافلہ میں ایسے افراد شامل ہوئے جو حصول آزادی کے سفر کی لہو دار صعوبتوں میں شریک نہ تھے لہذا جو مسلمان اپنا سب کچھ لٹا کر آزادی کے تابناک خوابوں کیساتھ ہجرت کرکے آزاد وطن پاکستان آئے وہ نظر انداز محروم و درماندہ حا ل رہے اندریں حالات قومی و معاشرتی تعمیر و ترقی کا عمل جاری نہ رہ سکا قومیں ان حالا ت میں ترقی کرتی جب انہیں ایسی قیادت میسر آجائے جو قومی مفاد کو ترجیح دیتی ہو، قوم کیلئے قربانی دینے کا عزم رکھتی ہو قائد اعظم پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانا چاہتے تھے۔قائد اعظم کی خدمات و ارشادات کی تکمیل کیلئے ہمارا کردار کے موضوع پہ اظہار خیال کرتے ہوئے ایک تقریب میں وزیراعلی پنجاب میاں شباز شریف نے کہا تھا کہ ہماری آزادی سے آج تک ہمارے اثاثے زیادہ ہیں یا ادائیگیاں اس موضوع پر بحث ہوسکتی ہے ہماری بیلنس شیٹ میں کوئی چیز ادائیگیوں پرحاوی ہے تو وہ پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا ہے ہمار ی ایٹمی طاقت اللہ تعالیٰ کے کرم کے تحت ہوئی ڈاکٹر ثمر مبارک مندو ڈاکٹر قدیر کی طرح کے سائنس دانوں کی بدولت ہوئی اگر پاکستان خدانخواستہ ایٹمی طاقت نہ بنتا تو آج دشمن کے سامنے پاکستان کی کوئی حیثیت نہ ہوتی، غربت جہالت پاکستان کے کروڑوں شہریوں کا مقدر نہیں ہم نے ماضی سے سبق سیکھ کر محنت و عزم کیساتھ آگے بڑھنا ہے ملک کے روشن مستقبل کیلئے ایسی بنیادیں رکھنا ہیں کہ آنیوالی نسلیں ہم پرفخر کرسکیں۔
،