قارئین کرام!صوبہ بلوچستان پاکستان کا وہ بدقسمت صوبہ ہے کہ جس کے باسیوں کی پسینے سے دیگر صوبے اور اپنے حکمران مزے لیتے ہیں وہ بھوک کی خاطر سڑکوں اور گلیوں میں دن بھر رزق کی تلاش کرتے ہی شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹتے ہیں گیس کی پیداوار سے اپنے چولہے ٹھنڈے اور پرائیوں کی چولہوں کو بجھانے والی صوبے کی عوام گیس کیا بجلی سے بھی روزبروز محروم ہوتاجارہاہے۔یہاں کے عوام دو وقت کے روٹی اور پیٹ پالنے کیلئے سڑکوں پر دیہاڑی کیلئے قطاروں میں کھڑے کھڑے بوڑھے ہوگئے مگر نہ اپنے پیٹ پالنے کا کوئی سسٹم چلا اور نہ بچوں کی مستقبل کا کوئی امید رہا۔بلوچستان میں نوجوانوں کو روزگار میسر نہ ہونے کی وجہ سے خطرناک حد تک منشیات جیسی ناسور میں مبتلا ہوچکے ہیں یا غربت اور مجبوری کی وجہ سے راہزنی ڈاکہ یا دیگر معاشرتی جرائم میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ اس صوبے کی بچے اور بچیاں دن بھر ڈھیروں پر گھومتے ہی تعلیم صحت اور اپنے بچپن کی حقوق سے محروم کھلے گریباں زندگی بسر کرتے ہیں۔اور ایک سروے کے مطابق بھیک مانگنے والوں کی تعدار بنسبت دیگر صوبوں سے کئی گنا زیادہ ہوچکا ہے۔اگر سروے کی جائیں تو رزلٹ آئیگا کہ صوبہ بلوچستان کے ہزاروں بچوں بوڑھوں اور بوڑھیوں میں بھوک کی بیماری کی وجوہات سامنے آئینگے ۔یہاں کے نوجوان نسل میں وقت کے ان پڑھ حکمران اور لالچ سے بھرے سیاستدان قومیت لسانیت اور افراتفری کی تنازعہ سیاست دل ودماغ میں ڈال رہے ہیں اور وقت کے نسل نو کو اپنے ذاتی اور خاندانی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں اس صوبے کے اعلیٰ سے لیکر ادنیٰ تک سیاستدانوں کے بچوں اور خاندانی ممبرز تعلیم ۔صحت پاکستان کے مرکزی شہروں سے حاصل کرتے ہیں لیکن غریب عوام کے نوجوان نسل اپنے اور بیٹوں کی مستقبل کیلئے استعمال کرتے ہیں۔یہاں اتنی خوف کا ماحول ۔زیادتیوں کی بھرمار۔کرپشن کی انتہاء اور حاکمیت کی راج ہے کہ وقت کے جاگیردار طبقہ سیاسی قوتیں اور خان۔ ملک ۔نواب غریب عوام کی فریاد کو بھی مزاج نازک پر برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں زیادتیاں ہورہی ہے صوبے کے اندر بڑے مگر مچھوں کی غلط پالیسوں کی وجہ سے ایک ضلعے کے لوگ دوسرے ضلعے کے بے بس عوام کی حقوق پر قابض ہیں یہاں نوجوانوں کو پیسوں کی عوض میں ملازمتیں دیتے ہیں میرٹ کا جنازہ یہاں سے کئی سال پہلے نکل چکی ہے بڑے سے لیکر چھوٹے دفاتر میں من مانیوں کا راج ہے بلوچستان کے ہر ضلع و تحصیل میں مروثی سیاستدانوں نے جنگل کا قانون بنا رکھا ہے ہر ایک اپنے پسند کے لوگوں کو ملازمت اور دیگر مراکز میں ڈیوٹیاں دیتے ہیں صوبہ بلوچستان کے قدرتی ذخائر کا فائدہ اپنوں کے بجائے پرائیوں کو جاتی ہے اور صوبائی سطح پر وسائل سے غریب عوام کے بجائے قابض سیاستداں مستفیدہورہے ہیں یہاں سرکاری و غیرسرکاری ادارے جو فعال ہیں سب کے سب سرکاری ہدایات کے بجائے کسی ذاتی اور شخصی عناصر کی ہدایات پر چلتے ہیں دوسری طرف این جی اوز اور اسکے برانچز بھی علاقائی سطح پر غریبوں کے نام پر لوٹ مار کرتے ہی آدھا حصہ کرپشن اور آدھا حصے کو علاقے کی معتبرین کے اختیارات میں دیتے ہیں اگر کوئی ایماندار اور اللہ سے خوف رکھنے والے اعلیٰ سطح کے افیسرز چیک اینڈ بیلنس کریں تو یہاں سب سے بڑے مجرم عوامی نمائیندے ہی ہونگے۔ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹس سب کھوکھلے نعروں تک محدود ہیں جسکی واضح مثال یہاں غریبوں کیلئے کوئی اسکیم نظام نہیں ہے اگرہے وہ بھی بڑوں تک محدود ہے غریب کی بس کی بات نہیں ہے کیا وزیراعلیٰ جواب دے سکتے ہیں؟؟؟نوجوانوں کو نوکریاں میرٹ کے بجائے پیسوں کی عوض میں دیے جاتے ہیں کیا چیف سیکرٹری جواب دے سکتے ہیں؟؟؟علاج کیلئے صوبے سے باہر جانا پڑتا ہے کیا غریب اپنے زندگی بچانے یا زندہ جینے کیلئے حق رکھتا ہے اور کیا وزیراعلیٰ نے کبھی اس پر نوٹس لیا ہے کہ اتنی بڑی صوبہ ہونے کے باوجود ہم دوسروں کے محتاج کیوں ہیں؟؟؟اسکالر شپ غریب کے بچوں کونہیں ملتی ہے جب ملتے ہیں تو معتبرین کے بچوں کو ملتی ہے کیا کبھی گورنر صاحب نے اس بارے میں اظہار خیال کرنے کا ارادہ کیا ہے؟؟؟بجلی پانی تعلیم اور دیگر ضروری وسائل سے محروم عوام کے بارے میں کبھی وزیراعظم نے کچھ کہنے کا تکلیف کیاہے؟؟؟سرکاری مراعات سے غریب عوام کیوں محروم ہے کیا صوبائی وزراء جواب دے سکتے ہیں؟؟؟کیا عوام کے اس حقوق کے متعلق میڈیاء نے بلندوبانگ دعوں کے بغیر کچھ کیا ہے؟؟؟افسوس ہے کہ یہاں سیاست۔ شہرت۔دولت۔طاقت۔اور بے بس عوام کے دلوں میں خوف وہراس پھلانے کیلئے کالے شیشے ۔کلاشنکوف کلچر ۔اسلحے کی نمائش اور مظلوم عوام کی حقوق پر ڈھاکہ ڈالنے کی بولیاں لگائے جاتے ہیں آخر تک اس بدقسمت صوبے کو اپنے مٹی سے وفادار نہیں ملا یہی کمی ہے کہ صوبہ بلوچستان کبھی دھماکوں کی آگ میں جلتی ہے کبھی خون کی ندیوں میں ڈوبتی ہے کبھی روڈ حادثات سے مصیبت زدہ ہوتی ہے اور کبھی بڑوں کی ہاتھوں سے لوٹی جاتی ہے۔
Tags Dr.Ghulam Murtaza محمد نسیم رنزوریار