کراچی (رپورٹ: ذیشان حسین) گلگت بلتستان لٹریری فورم اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اشتراک سے پہلی بروشسکی کانفرنس 15 جنوری کو آٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی، بروشسکی زبان و ادب کی تاریخ، حال اور مستقبل اور جدید دور میں بروشسکی جیسے اہم موضوعات پر ماہرین نے سیر حاصل گفتگو کی، ”بروشسکی زبان وادب کی تاریخ، حال اور مستقبل “ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس میں اسکردو یونیورسٹی میں شعبہ لسانیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد عیسیٰ، نامورمحقق شہناز ہنزئی، معروف بروشسکی شاعر و محقق بروشو ڈوڈوک نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اس موقع پر محقق بشارت عیسیٰ نے اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دئیے” جبکہ اس اجلاس میں جموں وکشمیر میں بولی جانے والی بروشسکی زبان کے حوالے سے امریکہ سے ڈاکٹر صدف منشی نے ویڈیو لنک کے ذریعہ کانفرنس میں شرکت کی، جدید دور میں بروشسکی“ کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں محقق اور سماجی کارکن رضوان قلندر، معروف صحافی و استاد منہاج موسوی اور صحافی و شاعر علی احمد جان نے سیر حاصل گفتگو کی۔
کانفرنس میں ظفر اقبال نے نصاب تعلیم اور مادری زبان کی اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، اپنی نوعیت کی منفرد اور پہلی بروشسکی کانفرنس میں کراچی کے مختلف علاقوں میں مقیم ہنزہ نگر اور یاسین سے تعلق رکھنے والے بروشسکی بولنے والی خواتین اور بچوں سمیت بڑی تعداد میںبزرگ و نواجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، نگر اور ہنزہ سے تعلق رکھنے والے معروف فوک داستان گو احسان علی (نگر) اور میر محمد خان( ہنزہ) نے مشہور فوک کہانیاں سنا کر ماضی کی روایات کو پھر سے تازہ کیا، بروشسکی کانفرنس میں بروشسکی مشاعرہ بھی ہوا جس میں معروف بروشسکی شعراء نے اپنا کلام پیش کرکے حاضرین سے خوب داد وصول کی، برشسکی کانفرنس میں ہنزہ نگر اور یاسین کے نامور فنکاروں نے اپنے فن سے سماع باندھا جس سے حاضرین خوب محظوظ ہوئے بروشسکی کانفرنس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مقررین نے کہا ہے کہ بروشسکی زبان کا تعلق ان زبانوں میں سے ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی جارہی ہے اور اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد بروشسکی زبان کا تحفظ اور ترویج کے لیے ماہرین لسانیات کے ساتھ ملکر غور و فکر کرنا ہے اور یہ اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے توقع کی جارہی ہے کہ مستقبل قریب میں اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔