مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس بات کو تسلیم کرنا کہ نبی آخری الزاماں محمدِ مصطفی ﷺ اللہ کےآخری رسول ہیں یہ ہمارے ایمان کا بنیادی جُز ہے۔ لفظ عقیدہ کے معنی ہیں بندھی ہوئی یا گِرہ لگائی ہوئی چیز اور ختم کا مطلب ہے مہر لگانا، ختم کرنا۔ عقیدہ ختمِ نبوت کا مطلب یہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا انبیاء کا جو سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہوا وہ نبی ﷺ پر ختم ہو گیا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نبی ﷺکے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا اور انبیاء کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔ آپ اوّل بھی ہیں اور آخر بھی۔ اوّل درجے(وجود ) میں اور آخر (ظہور) میں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت ( نبوت رسالت ) کو پورا کر دیا ہے "
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے۔
"لوگو! محمد ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے”
نبی ﷺ نے فرمایا "میری اور دوسرے انبیاء علیہ السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے مکان بنایا اور اُسے مکمل کر لیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی قصرِ نبوت کی وہی آخری اینٹ ہوں میں جس نے اس کی تکمیل کر دی سن لیجئے میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اللہ کا قانون ہے کہ جس چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی وہ مٹا دی جاتی ہے اور جس شے کی ضرورت ہوتی ہے وہ باقی رکھی جاتی ہے اور اسے مٹنے سے محفوظ کر دیا جاتا ہے آپ ﷺکی شریعت کو باقی رکھا گیا آپ سے پہلے کی شریعتیں یا تو مٹ گئی یا اس قدر ردوبدل ہو گیا وہ اپنی اصل حالت میں موجود نہیں لیکن آپ کی شریعت محفوظ ہے اور قرآن حکیم کے الفاظ میں ذرہ بھی ردوبدل نہیں ہے۔
حضورﷺ کی رحلت کے بعد کچھ لوگوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے بھی شروع کر دیئے ۔مسلمانوں پر جبراً اپنی نبوت کا دعویٰ مسلط کرنے لگے۔ ظلم و جبر شروع ہو گیا۔ ان نبوت کے جھوٹے دعوے کرنے والوں میں مسلیمہ کذاب بھی شامل ہےجو لوگوں سے پو چھتا کہ آخر تم محمد کے پیروکار کیوں ہو ایسا کیا ہے اس میں تو لوگوں نے بتایا محمد ﷺ سرا پائے معجزہ ہیں ۔ وہ کسی کے سر پر ہاتھ پھیڑ دیتے تو اُس کی بگڑی قسمت سنور جاتی ان کے لعابِ دہن سے بیماروں کو شفا ملتی ہے۔ مسلیمہ کذاب نے بولا سو بچوں کو لایا جائے اس نے کچھ بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کچھ کے منہ میں اپنا لعابِ دہن ڈالا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تعداد میں کمی واقع ہونے لگی۔ طیش میں آکر اس نے اپنے خادموں کو بُلایا اور وجہ پوچھی تو لوگوں نے بتایا کہ جن بچوں کے سر پر آپ نے ہاتھ پھیرا وہ تمام گنجے ہو گئے اور جن کے منہ میں لعابِ دہن ڈالا وہ سب گونگے ہو گئے ۔
ختمِ نبوت کا دفاع کرنے والے صحابہ میں ایک صحابیہ حضرت امِ عمارہ کا نام بھی سرِفہرست ہے۔ جن کا تعلق قبیلہ بنو نجات سے تھا۔ ان کے دو بیٹے تھے جن کا نام عبداللہ اور حبیب تھا۔ یمانہ کے قریب مسلیمہ کذاب نے ان کے بیٹے حبیب کو پکڑ لیا اور ان سے کہلوانا چا ہتا تھا کہ مسلیمہ نبی ہے لیکن ان کی زبان ہر بار ختمِ نبوت کی گواہی دیتی۔ وہ جتنی بار نہ کرتے مسلیمہ ان کے جسم کے حصے کاٹتا جاتا اور اس طرح انہیں شہید کر دیا۔ حضرت عمارہ کو جب علم ہوا تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرا بیٹا حضور ﷺ کی ناموسِ رسالت پر قربان ہوا ہے۔ حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ کو تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے شہید ہونے والے فرزند کی ماں کا اعزاز حاصل ہے۔ اُحدِ صدیق رضی اللہ عنہ میں جنگ ہوئی جِسے معرکہ یما نہ کہا جاتا ہے اس جنگ میں حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ کو خاتون اُحد کا لقب دیا گیا۔ اس جنگ میں ان کا دوسرا بیٹا عبداللہ بھی دفاعِ ختمِ نبوت پر قربان ہو گیا یہ پہلی جنگ تھی جس میں بارہ سو صحابہ نے دفاعِ ختمِ نبوت کے لیے جامِ شہادت حاصل کی۔ اس میں مسلیمہ کذاب مارا گیا اور حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ شہید ہو گیا۔ عہدِ فاروقی میں اُمِ عمارہ شہید ہو گئی اور الجبیلہ میں تد فین ہوئی ۔
اللہ پاک اپنے نبی کی شریعت کا دفاع کرنے والا ہے جس کے لیے اپنے کچھ خاص لوگوں کو چن لیتا ہے آج بھی دنیا میں لاکھوں عاشقان ِرسول مو جود ہیں جو دفاعِ ختمِ نبوت کے لیے جان کے نذرانے پیش کرنے کو تیار ہے ان عاشقان مُصطفیٰ ﷺ میں ایک نام قاری ممتاز حسین قادری ہے جو کہ ایلیٹ پولیس میں تھے اور اُس وقت کے گورنر سلمان کے سکیورٹی گارڈ تھے سلمان ایک گستاخِ رسول تھا جو پہلے بھی کئی بار شانِ رسول میں گستاخی کر چُکا تھا۔ 4جنوری 2011 کو ممتاز قادری کی غیرت گوارہ نہ کر سکی اور انہوں نے اس گستاخ کو جہنم واصل کر دیا اس کو قتل کر دیا۔ اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔ چار پانچ سال جیل میں ان پر تشدد کیا جاتا رہا روزے کی حالت میں 29 فروری 2016کو انہیں پھانسی دی گئی 70لاکھ لوگوں نے جنازے میں شرکت کی اس کا شمار ٹاپ دس جنازوں میں ہوتا ہے جس میں اتنی بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی ۔
جب جب کوئی گستاخ ختمِ نبوت آئے گا تب تب عاشقانِ رسول دفاع کریں گے۔