پاکستان کو اللہ تعالٰی کا ایک معجزہ بھی کہا جاتا ہے۔جن حالات میں اس کی تخلیق ہوئی اور جس طرح قائداعظم نے اسے تن تنہا طویل جدوجہد کے بعدحاصل کیا سچ میں ایک معجزہ ہی تو ہے۔اور جس طرح ہمارے حکمران اسے پچھلے 76سال سے لوٹ رہے ہیں اس کے باوجود یہ قائم دائم ہے یہ بھی معجزہ ہی تو ہے۔اور اب اس ایٹمی طاقت کے عوام کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اللہ تعالٰی کے اس معجزے کے قائل ہو چکے ہیں۔
کل صبح سات بجے سے جو بجلی گئی تو رات آٹھ بجے اس نے اپنی خوبصورت شکل دکھائی۔اس دوران ہماری عظیم ، نہایت ویلی اور پر کا کوا بنانے والی قوم نے جتنے منہ اتنی باتیں والا محاورے پر عمل کرتے ہوئے بجلی جانے کی وجوہات اور اس کے واپس آنے کے اوقات کے بارے میں باوثوق طریقے سےاتنے قیافے لگائے کہ شاید خرم دستگیر صاحب اور واپڈا کے اسٹاف کو بھی اتنا معلوم نہیں ہو گا۔
ویسے تو روزانہ ہی چند گھنٹے کے لیے بجلی چلی جاتی ہے۔اور کبھی کبھار کسی مرمت کے سلسلے میں صبح سات سے تین بجے تک بھی چلی جاتی ہے۔جیسے کہ پچھلے ہفتے ہوا مگر اتنی لوڈ شیڈنگ تو ہمارے لیے اب معمول کی بات ہے۔اس لیے جب کل تین بجے کے بعد بھی بجلی واپس نہیں آئی تو ہم ذرا پریشان ہو گئے۔کیونکہ واٹر ٹینک میں پانی کم تھا، کھانا بھی بنانا تھا اور بچے بھی بنا ٹی وی، کمپیوٹر اور نیٹ کے کام نہیں کر پا رہے تھے۔
واپڈا آفس فون کیا تو فون بزی جا رہا تھا۔کیونکہ ہر کوئی فون کر کے صورتحال جاننا چاہ رہا ہو گا اور واپڈا کا وطیرہ ہے کہ جب بھی ایسی کوئی صورتحال ہوفون کریڈل سے اتار کر رکھ دیتے ہیں کہ نہ ہو گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔اتنے میں بھائی کے بچے ٹیوشن سے واپس آئے تو اطلاع دی:” ٹیچر کی بہن یونیورسٹی سے آئیں تو کہہ رہی تھیں کہ تین دن بعد بجلی آئے گی۔” یقین تو نہیں آیا پر ہمارے محکموں کی کارکردگی کا ریکارڈ اتنا شاندار ہے کہ گومگو کی کیفیت میں رہے۔
کچھ دیر بعد بھابھی کی ہیلپر آئیں تو کہنے لگیں:” بیٹا بتا رہا تھا کہ کل 12 بجے تک بجلی آئے گی۔” دل میں سوچا یہ تو ہم پاکستانیوں کی عادت ہے کہ کسی چیز کے بارے میں علم ہو یا نہ ہو اس کے بارے میں ایسے رائے دیتے ہیں جیسے اسی میں پی ایچ ڈی کی ہو۔لہذا اس اطلاع پر بھی کان نہ دھرے۔مغرب کے بعد بھائی واپس آیا تو بتایا” رات دس بجے تک لائٹ آ جائے گی۔کیونکہ تربیلا کے گرڈ اسٹیشن میں کچھ گڑبڑ ہو گئی تھی۔” چونکہ وہ ایک بزنس مین ہے اور روزانہ کئی لوگوں سے ڈیل کرتا ہے چنانچہ سوچا یقینا کسی نے درست اطلاع ہی دی ہو گی۔اگرچہ کامل اعتبار اس پر بھی نہ تھا مگر پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ پر عمل کرتے ہوئے سوچا چلو دس بجے تک آ ہی جائے گی۔
یو پی ایس کا سوئچ بھی خراب تھا اور ایمرجنسی لائٹس بھی چارجڈ نہیں تھیں۔بھائی نے یو پی ایس ٹھیک کیا تو لائٹ آن کر کے جلدی سے کھانا بنایا بچوں کو بستر میں لٹایا۔فونز اور بیٹریز چارجنگ پر لگائیں۔اس دوران بھابھی نے ایسے ہی سوئچ آن کیا تو بلب جل اٹھا۔بچے بستروں سے نکل آئے اور پاکستانیوں کا پسندیدہ نعرہ بلند کیا:” آ گئی!!!!!”
نہ اگلے دن، نہ دس بجے بلکہ آٹھ بجے ہی بجلی صاحبہ کی آمد ہو گئی۔ہم بھی خوش ہو گئے۔ٹی وی لگایا تو خرم دستگیر صاحب پریس کانفرنس میں بجلی کے بریک ڈاؤن پر بریفنگ دے رہے تھے۔مجھے صحیح سے یاد نہیں کہ پچھلے سال یا اس سے پچھلے سال بھی ایساہی ایک بریک ڈاؤن ہوا تھا اور پورے چوبیس گھنٹے کے لیے تھا۔اور بجلی کی واپسی بھی کسی کسی علاقے میں ہوئی تھی۔اس وقت بھی لوگوں نے قیافہ لگائے تھے کہ "انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ایٹمک پاور پلانٹ پر کوئی دھماکہ ہو گیا ہے۔مارشل لاء لگ گیا ہے۔”
اصل وجہ تو اس وقت بھی پتہ نہیں چلی تھی مگر ہمارے لیے یہی کافی تھا کہ بجلی صاحبہ واپس آ گئی تھیں۔کل جب سارا دن لائٹ نہیں تھی تو امی اور خالہ سے پوچھا:” جب لائٹ نہیں ہوتی تھی تو آپ لوگ کیا کرتے تھے؟ خالہ چونکہ امی سے بڑی ہیں تو انہوں نے بتایا:” اس وقت گھر کے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔میں سحری کے وقت آٹھ کر چکی پر آٹا پیس کر فجر پڑھ کر تازہ پسے آٹے سے پراٹھے بناتی تھی۔ہماری ہمسائی کا خاندان بڑا تھا تو وہ رات بارہ بجے ہی اٹھ کر چکی چلانا شروع کر دیتی تھیں۔کنوئیں سے پانی بھرنا، صفائی، کپڑے دھونا، بھینسوں بکریوں کو چارہ کاٹ کر دینا، کھانا بنانا اور عشاء پڑھ کر سو جانا۔اسی میں دن تمام ہو جاتا تھا۔اب تو اتنی سہولیات ہیں مگر وقت میں برکت نہیں۔”
یہ سن کر بچپن یاد آ گیا جب ماموں گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی ہمیں گاوں لیجانے پہنچ جاتے تھے اور ہم برے برے منہ بناتے بددلی سے ان کے ساتھ چلے جاتے تھے۔کیونکہ گاوں میں ابھی بجلی گیس نہیں پہنچی تھیں۔اور ہمیں بناء پنکھے اور ٹی وی فریج کے رہنے کی عادت نہیں تھی مگر ماموں کے پیار کے آگے بےبس ہو جاتے تھے۔نانا کے گھر تو کم ہی رہتے تھے کیونکہ وہاں کوئی بچہ نہیں تھامگر خالہ کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے شوق میں وہاں پہنچ جاتے تھے۔پھر گلی ڈنڈا، کنچے، پٹھو گول گرم، شٹاپو، نام چیز جگہ، بوجھو تو جانیں، چھپن چھپائی اور نجانے کیا کیا کھیلتے رہتے تھے۔رات سونے سے پہلے خالہ کہانیاں سناتی تھیں یوں دو ماہ گزر ہی جاتے تھے۔
اب تو بجلی، پانی، گیس جیسے آکسیجن کی طرح ضرورت زندگی بن چکے ہیں۔ان کے بناء زندگی معطل ہو کر رہ جاتی ہے۔ایٹمی طاقت کے عوام بغیر گیس بجلی پانی لکڑیاں جلاتے، واٹر فلٹرز پر قطاریں لگائے پانی بھرتے، لالٹین جلائے نظر آتے ہیں۔اور پاکستان غاروں کے دور کامنظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔اللہ تعالٰی ہم پر رحم فرمائے۔