ہمارے معاشرے میں خودغرضی اور بےحسی اس قدربڑھ چکی ہے کہ ہم بناء سوچے سمجھے کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔کبھی ٹین ایج بچوں کو اپنی دشمنی کی بھینٹ چڑھا کر انہیں بھرے مجمعے میں مار مار کر قتل کر دیتے ہیں تو کبھی کسی غیر مسلم سے اختلاف کی وجہ سے اس پر گستاخی رسول کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیتے ہیں ۔حال ہی میں ایسا ہی ایک واقعہ اپر چترال میں پیش آیا۔
تیرہ سالہ تنویر ضیاء الحق کو ایک ایسی دکان سے پرفیوم اور گھڑی لے کر نکلتے دیکھا گیا جہاں دکاندار موجود نہیں تھا۔لوگوں نے اسے پکڑ لیا اورتشدد کا نشانہ بنایا پھر پولیس کے حوالے کر دیا۔ بقول پولیس کے انہوں نے بچے سے صرف پوچھ گچھ کی اور والد کو بلا کر گھر بھیج دیا۔جب کہ تنویر کے والد کا موقف کچھ اور ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تنویر کوپولیس چوکی میں رکھا گیا اور گھنٹوں تک مختلف طریقوں سے پوچھ گچھ کرتے رہے جبکہ بچے پر ایک سے زیادہ چوری کی وارداتوں کا الزام بھی لگایا گیا۔اس تمام تر صورتحال کا بچے کی نفسیات پر منفی اثر پڑا اور وہ خوف کی وجہ سے سہم گیا۔گھر جا کر کم سن تنویر ذہنی دباؤ کا شکار رہا اور اگلے دن خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔
جبکہ پولیس کا موقف ہے کہ شاید بچے پر گھر لے جاکر تشدد کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس نے انتہائی قدم اٹھایا۔وجہ کچھ بھی ہو۔قابل غور بات یہ ہے کہ کیا کسی نے بھی یہ زحمت کی کہ وہ بچے سے یہ پوچھتا کہ اس نے یہ چیزیں کیوں اور کیسے لیں؟شاید اس نے پیسے کاونٹر پر رکھ دئیے ہوں، شاید اس نے دکاندار کو ادائیگی پہلے سے ہی کر دی ہو، شاید اس نے واقعی ہی چوری کی ہو۔مگر یہ سب مفروضے ہیں حقیقت کا علم ابھی تک کسی کو نہیں ہو سکا۔کیونکہ دکاندار نے ابھی تک سی سی ٹی وی کی فوٹیج پولیس کو نہیں دی۔
لیکن ذرا اس تیرہ سالہ بچے کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگائیے جسے بھرے بازار میں اور پھر پولیس اسٹیشن میں مجرم ٹھہرایا گیا۔کیا وہ اس معاشرتی دباؤ کو فیس کر سکتا تھا جس کا شکار اسے اس الزام کے بعد ہونا تھا۔کیونکہ ہمارے ہاں یہ بھی ایک نارم ہے کہ ہم الزام لگا کر بغیر کسی ثبوت کے مجرم ثابت کر کے سزا بھی سنا دیتے ہیں۔اور صرف سزا سنانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ ملزم اور اس کے اہل خانہ پر طعنے تشنیع سے دائرہ زندگی بھی تنگ کر دیتے ہیں۔
تنویر والے حادثے نے مجھے اس بچی کی یاد دلا دی۔ جس نے کسی ٹی وی چینل کے نمائندے کو ایک جملہ غلط انگلش میں بول دیا تھا۔سوشل میڈیا وارئیرز نے اسے اتنا ٹرول کیا کہ اس نے خودکشی کی کوشش کر ڈالی۔کیا غلط انگلش بولنا اتنا بڑا جرم تھا کہ اسے مرنے پر مجبور کر دیا گیا؟؟؟ ہم مغرب کو آئیڈیلائز تو کرتے ہیں ان جیسا بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر کیا کبھی ان کی مثبت عادات بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں؟ مغربی ممالک میں اگر کوئی ٹین ایجر قتل بھی کر دے تو اسے اصلاحی مراکز میں رکھا جاتا ہے نہ کہ جیل میں۔بچوں کے بہت سے حقوق ہیں اور انہیں ہر طرح کی پروٹیکشن حاصل ہوتی ہے۔
اسلام بھی بچوں کو ایک امانت قرار دیتا ہے۔ان سے پیار محبت اور نرمی سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔اور یہ بھی سکھاتا ہے کسی بھی جرم کی سزا اس وقت تک نہیں دی جا سکتی جب تک کہ وہ جرم ثابت نہ ہو جائے اور چار گواہ نہ مل جائیں۔پھر ہم یہ تعلیمات کیوں بھول جاتے ہیں اور خود ہی منصف بن کر سزا پر عملدرآمد بھی فورا ہی کر دیتے ہیں۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر شخص اپنے اعمال کا جوابدہ ہو گا۔اور حقوق اللہ کی معافی تو مل ہی جائے گی مگر حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ لوگ معاف نہ کر دیں جن کی حق تلفی کی گئی ہو۔
تنویر ضیاء الحق کو جس شرمندگی کا سامنا بازار میں کرنا پڑا ہو گا جہاں اس کے کئی دوست احباب بھی ہوں گے۔اس نے گھر جا کر سوچا ہو گا صبح جب وہ اسکول جائے گا تو اس کے کلاس فیلوز دوست اس کا مذاق اڑائیں گے تو وہ کیا کرے گا۔اس کی وجہ سے اس کے ماں باپ کو رشتے دار ہمدردی کی آڑ میں طعنے دیں گے تو ان پر کیا بیتے گی۔اس پریشر کے نتیجے میں اس کے ننھے ذہن نے آسان حل سوچا کہ نہ وہ رہے گا نہ ہی یہ سب اسے برداشت کرنا پڑے گا۔چنانچہ وہ اٹھا دریا پر گیا اور چھلانگ لگا دی۔
ایسا نہیں کہ اس نے اپنے والدین اور بہن کے بارے میں نہیں سوچا ہو گا اسے ان سب کا احساس تھا یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی بہن کے نام ایک نوٹ لکھا جس میں اس نے اس سے معافی مانگی اور لکھا کہ اسے اس سے محبت ہے۔مگر اسے سوائے خودکشی کے کوئی اور حل سمجھ نہ آیا۔ہمیں بحیثیت قوم اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔قرآن پاک میں انسانوں کو بندروں سے تشبیہ دی گئی ہے۔بندروں کی عادت ہوتی ہے کہ جب ان میں سے کوئی بھی زخمی ہوتا ہے تو غول کا غول اس کی عیادت کو جاتا ہے اور ہر ایک اس کے زخم کو کریدتا ہے۔اور اس کی تکلیف میں اضافہ کرتا ہے۔
ہمارا بھی یہی حال ہے ہم بھی ہمدردی کے بہانے عیادت اور تعزیت کے لیے جاتے ہیں اور ہر ایک بیماری کی تفصیل اور موت کے بارے میں پوچھ کر لواحقین اور مریض کی تکلیف میں اضافہ کرتا ہے۔جبکہ عیادت اور تعزیت کا مقصد لواحقین اور مریض کے دکھ میں کمی کرنا اور ان کا درد بانٹنا ہوتا ہے۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک جسم کی مانند ہے جس کے ایک عضو میں درد ہو تو پورا جسم اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے۔جبکہ ہمارے ہاں تو اس عضو کو کاٹ ہی دیا جاتا ہے بغیر یہ سوچے کہ اپنا ہی جسم اپاہج کر رہے ہیں۔اس رویے کو چھوڑ کر ایک مسلمان کا طرزِ اپنائیے تاکہ آئندہ ایسے حادثات نہ ہوں۔
Tags Dr.Ghulam Murtaza حمیرا علیم