نام’ لقب :
آپ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا تھا، خطاب ام المؤمنین اور بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنت الصدیق کے خطاب سے بھی یاد فرمایا ہے۔
بچپن :
آپ کا بچپن اور بچوں کے مقابلے میں بہت ممتاز تھا، اپ غیر معمولی ذہن اور زبردست حافظے کی مالک تھیں۔ایک بار اپ گڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔آپ بھی موقع پر پہنچ گئے آپ نے دیکھا کہ ان گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی ہے ۔ اور آسکے دائیں بائیں طرف دو بازو لگے ہوے ہیں اپ نے پوچھا:عائشہ ! یہ کیا ہے ؟عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے جواب دیا ۔یہ گھوڑا ہے۔رسول نے فرمایا عائشہ گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے ہیں۔ اپ نے برجستہ کہا حضرت سلیمان کے گھوڑوں کے تو پر تھے۔ یہ بے ساختہ جواب سن کر حضور مسکرا دے۔
نکاح :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خواب دیکھا کہ ایک شخص ریشم میں لپٹی ہوئی کوئ چیز تحفے میں پیش کر رہا ہے اور کہ رہا ہے یا رسول اللہ یہ آپ کی ہے۔آپ نے وہ چیز لے لی جب کھول کر دیکھا تو اس میں سے حضرت عائشہ نمودار ہوئیں۔ یہ کسی عام انسان کا خواب نا تھا نبی کا خواب تھا سچا خواب ،یہ اللہ کی طرف سے بشارت تھی کہ اللہ نے رسول کے لیے حضرت عائشہ کو رفیقہ حیات کی حیثیت سے منتخب فرمایا۔ اور اسی طرح اللہ نے نو عمری میں آپ کو اُمت کی ماں کا بلند ترین مرتبہ عطا فرمایا۔
حضرت عائشہ کی محبت رسول کی نظر میں :
بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے بے پناہ محبت تھی،اس حقیقت سے تمام صحابہ آشنہ تھے۔حضرت عمروبن العاص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا!یارسول اللہ دنیا میں آپ کو سب سے ذیادہ کون محبوب ہے ؟ ارشاد فرمایا۔ عائشہ !سائل نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں مردوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ فرمایا۔ "عائشہ کا باپ۔”
ایک بار دوران سفر حضرت عائشہ کی سواری کا اونٹ بدگ گیا۔ اور وہ عائشہ کے لیے ایک طرف کو بھاگا یہ منظر دیکھ کر اللہ کے رسول اس قدر بے قرار ہو گۓ کہ بے اختیار آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے۔ واعُروسَاہَ "ہاے میری دلہن !”
اور یہ عظیم فضیلت حضرت عائشہ کو علم و کردار کی انہی امتیازی اوصاف کی بنا پر حاصل تھی۔
حضرت عائشہ نے خود ارشاد فرمایا دس خوبیاں مجھے ایسی ملی ہیں جو ازواج میں کسی اور کو نہیں ملیں اور انہی کی بنا پر مجھے ازواج پر فضیلت حاصل ہے۔
۔ میرے سوا رسول کے نکاح میں کوئی کنواری عورت نہیں آئی۔
۔ ازواج میں صرف میں ہی ہوں کہ میرے باپ اور ماں دونوں مہاجر ہیں۔
۔ اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں آسمان سے میری برات کی آیتیں نازل فرمائیں۔
۔ جبریل میری شکل میں حضور کے پاس آۓ۔
۔ میں آپ کے سامنے رہتی اور آپ نماز پڑھتے رہتے۔
۔ آپ پر وحی نازل ہوتی جب کہ میں اور رسول اللہ ایک ہی لحاف میں ہوتے۔
۔ جب آپ دنیا سے رخصت ہو رہے تھے آپ کا سر اقدس میرے زانو پر رکھا ہوا تھا۔
۔ میری باری کی رات میں اللہ کے رسول کی وفات ہوئی۔
۔ میں اور اللہ کے رسول پانی کے ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے۔
۔ میرے ہی حجرے میں آپ دفن کے گۓ۔
آپ رمضان کے مبارک مہینہ میں بیمار پڑیں چند روز بیماری کی تکلیف اٹھائی لوگ عیادت کے لیے اتے اور احوال پوچھتے تو فرماتیں۔ اچھی ہوں۔سترہ رمضان المبارک کو نماز وتر کے بعد شب میں وفات پائی ۔ جنازے میں اس قدر ہجوم تھا کہ رات کے وقت مدینہ میں اتنا بڑا مجمع کبھی نہ دیکھا ہوگا۔عورتوں کی اس قدر کثرت تھی کہ عید کہ دن کا دھکا ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے اور آپ کے درجات بلند کرے ۔
آمین ثم آمین
Tags Dr.Ghulam Murtaza بنتِ علی قریشی