سیدہ عائشہ اللہ کے محبوب کی دوسری مگر محبوب بیوی تھی۔ آپ کا نام عائشہ لقب حمیرا اور صدیقہ اور کنیت اُم عبداللہ تھی۔سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدماجد کا نام عبداللہؓ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق تھا۔ والدہ کا نام اُمِ رومان تھا۔
حضرت عائشہ نبوت کے چو تھے سال پیدا ہوئی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد رسول ﷺ بہت غمگین رہتے تھے جبرائیل علیہ السلام مسلسل تین دن ریشم کا کپڑا لے کر تشریف لاتے اور فرماتے اللہ پاک نے ان کو آپ کی زوجہ مقرر کر دیا ہے۔جب نبی ﷺ کھولتے تو انہیں حضرت عائشہ کا چہرہ نظر آتا۔ اللہ پاک نے ان کا نکاح مقرر کیا تمام دوسری عورتوں کے جوڑے آسمان پر بنتے ہیں اور نکاح زمین پر ہوتا ہے مگر ان کا جوڑابھی آسمان پر بنا اور نکاح بھی وہی ہوا۔ حضور ﷺ نے جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا یا رسول اللہ عائشہ کا نکاح آپ سے کیسے؟؟آپ تو میرے بھائی ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا "میں تمہارا دینی بھائی ہو نصبی نہیں” اس لیے عائشہ مجھ پر حلال ہے۔چھ برس کی عمر میں نکاح ہوا۔
شوال سن 1ہجری میں 9برس کی عمر میں رُخصتی ہوئی۔
حضرت عائشہؓ اکثر گھر میں چھوٹی بچیوں کو بُلا کر ان کے ساتھ کھیلتی جب نبی ﷺ گھر میں داخل ہوتے تو وہ بچیاں چھپ جایا کرتی۔حضرت عائشہؓ کو گڑیا سے کھیلنا اور جھولا جُولنا پسند تھا۔ ایک دن نبی ﷺ گھر تشریف لائے تو عائشہؓ گھوڑے سے کھیل رہی تھیں جس کے پر بھی تھے۔فرمایا عائشہؓ کیا کر رہی ہو تو کہنے لگی گھوڑے سے کھیل رہی ہوں نبی ﷺ نے فرمایا اس گھوڑے کے تو پر ہیں تو فرمانے لگی یا رسول اللہ حضرت سلیمان کے گھوڑے کے بھی تو پر تھے۔اس سے ان کی حاضر دماغی اور علم کا اندازہ ہوتا ہے ۔
حضرت عائشہؓ کائنات میں سب سے بڑی عالمہ و فاضلہ تھی۔صحابہؓ اکرام یہاں تک کے عمر رضی اللہ عنہ کودینی و دنیاوی معا ملات میں کوئی رائے چاہیے ہوتی تو حضرت عائشہؓ کے پاس تشریف لاتے اور کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹتےکیونکہ انہوں نے علم سرورِ کائنات سے حاصل کیا تھا۔ اسلام کی سب سے پہلی حافظہ تھی۔
خادمہ موجود ہونے کے با وجود رسول اللہ کے سارے کام خود کرتی ۔ آٹا پیستی۔ نبی ﷺ کے بالوں میں تیل لگاتی ۔ بستر جھاڑتی رات کے وقت نبی ﷺ کے سرہانے پانی اور مسواک رکھتی۔ گھر میں ایک چارپائی، ایک بستر، مٹکہ اور پیالہ تھا۔ مکان کی چھت کھجور کی چھال کی تھی جس پر بارش سے بچنے کے لیے کمبل ڈالا گیا تھا اور دروازے پر بھی ایک کمبل بطور پردہ ڈالا گیا تھا۔چالیس چالیس دن گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا مہینہ مہینہ چو لہا نہیں جلتا تھا چھوہارے اور پانی پی کر گزارا کرتے جب نبی ﷺ کا وصال ہوا گھر میں ایک دن کے گزارے کا سامان بھی موجود نہیں تھا انتہائی عبادت گزار، بہادر، قناعت و سخاوت کی پیکر تھی ستر ہزار دینار بھی تقسیم کر دیے ۔ اپنے لیے ایک روپے نہ رکھا حالانکہ اپنے کپڑوں کو پیوند لگی تھی۔
نبی ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے کی اس محبت کا بھی اظہار کیا کہ عائشہؓ جب تم ناراض ہوتی ہو تو مجھے علم ہو جاتاہے فرمایا یا رسول اللہ کیسے ؟؟ تو نبی ﷺ نے جواب دیا "جب ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو ابراہیم کے رب کی قسم اور جب خوش ہوتی ہو تو کہتی ہو ربِ محمد کی قسم” تو کہنے لگی یا رسول اللہ زبان سے نام چھوڑتی ہوں دل سے نہیں۔
یہ وہ زوجہ تھی جنہیں اللہ پاک آسمان سے سلام بھیجتے اور آپ زمین سے جواب دیا کرتی۔ انہوں نے ہی جبرائیل کو بھی انسانی روپ میں دیکھا۔5 ہجری شعبان میں ایک واقع پیش آیا قافلہ جانا تھا جس کے لیے قرعہ اندازی ہوئی کہ کون سی زوجہ ساتھ سفر کریں گی تو حضرت عائشہ کا نام آیا دوران سفر ان کا ہار کھو گیا جو وہ اپنی بہن سے اُدھار لائی تھی وہ ڈھونڈ رہی تھی کہ قافلہ نکل گیا کسی کو علم نہیں ہوا کہ عائشہ نہیں ہیں۔ وہ اپنے خیمے میں آرام کرنے لگی۔ حضرت صفوان ابنِ معطل وہاں سے گزرے تو ان کی نظر حضرت عائشہ پر پڑی اس وقت پردے کا حکم نہیں آیا تھا اس لیےصحابی نے دیکھتے ہی پہچان لیاتو وہ اونٹ پر ان کے ساتھ مدینہ پہنچی ۔ تو ایک منافق نے بہتان لگایا کے معاذاللہ ان کے آپس میں تعلقات ہیں۔ جب حضرت عائشہ کو علم ہوا تو وہ رونے لگی اور بیمار پڑھ گئی ۔ اللہ پاک ان کی پاکدامنی کے وکیل خود ہیں اور ان کی پاکدامنی میں قرآن کی گیارہ آیات نازل ہوئی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں مجھے پورا یقین تھا کہ اللہ پاک میری بے گناہی ضرور ثابت کریں گے مگر یہ نہیں جانتی تھی کہ قرآن کی آیات کے زریعے ہو گی۔ان کے بستر پر بھی بنی ﷺ پر وحی نازل ہوتی رہی۔ غزوہ بدر میں انہیں کے دوپٹے کو بطور پرچم لہرایا گیا۔
نبی ﷺ نے فرمایا میری بیویوں مجھے معاف کرنا مگر آپ سب میں سے مجھے سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ سے ہے ۔ نبی ﷺ کو ان سے بے انتہا محبت تھی نبی ﷺ برتن میں اسی جگہ سے پانی پیتے جہاں سے عائشہؓ پیتی وہی سے ہڈی چوستے جہاں سے عائشہ چوستی۔ نبی ﷺ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ آپ سب سے زیادہ محبت کس سے کرتے ہیں؟؟تو جواب دیا عائشہ سے اور پوچھا گیا مردوں میں سے تو نبی ﷺ نے فرمایا عائشہ کے والد ابو بکر سے۔ صحابہ کرام کو جب نبی ﷺ کی خدمت میں کوئی تحفہ بھیجنا ہوتا تو اس وقت بھیجتے جب نبی ﷺ حضرت عائشہؓ کی آرام گاہ میں ہوتے۔ ان کو چھوٹی سی عمر میں مومنوں کی ماں قرار دیا گیاان کی خوبیوں کا حساب نہیں لگایا جا سکتا بارش کے قطروں سے بھی زیادہ درختوں کے پتوں سے بھی زیادہ ہیں اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔جب ان کی بہن اسماء کے گھر بیٹا ہوا تو اسے لیکر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی ۔تو اس دن نبی ﷺ نے انہیں اُم عبداللہ قرار دیا۔نبی ﷺ ان کی گود میں سر رکھ کر قرآن کی تلاوت کیا کرتے۔ یہ نبی ﷺ کی واحد کنواری بیوی تھی۔
وصال کے وقت نبی ﷺ کا سر ان کی گود میں تھا ۔ 17رمضان کو ان کی وفات ہوئی اس وقت آپ کی عمر 67 برس تھی۔ اللہ پاک ہمیں حضرت عائشہؓ کی تعلیمات اور ان کی طرزِ زندگی اپنانے اور آقائے دو جہاں اور حضرت عائشہؓ جیسی ازواجی زندگی گزارنے اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین