تازہ ترین
Home / Home / حمیرا جمیل، فخرِ سیالکوٹ ۔۔۔ تحریر : مسکان ملک

حمیرا جمیل، فخرِ سیالکوٹ ۔۔۔ تحریر : مسکان ملک

آج میں اقبالیات کے میدان میں ناقابل فراموش، گراں قدر خدمات سرانجام دینے والی ایک ایسی قابل فخر شخصیت کا ذکر کرنے جارہی ہوں. جو 3مئی 1996 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں. انہوں نےگورنمنٹ ہائی اسکول، سیالکوٹ سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج سے ایف اے، بعدازاں اسی ادارے سے بی ایس اردو اور ایم ایس اردو کی ڈگری حاصل کی۔ 2015میں مختصر تحریر بلدیاتی الیکشن کے متعلق ایک اخبار کے لیے لکھی اور لکھنے کا یہ سلسلہ اخبارات سے میگزین کی طرف اور میگزین سے کتابوں کی اشاعت تک جاپہنچا. ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "درد کاسفر” کے نام سے چھپ کر سامنے آیا . اس کے بعد مضامین کتابی صورت میں "تلخ حقیقت” کے نام سے شائع ہوئے. انہوں نے علامہ محمد اقبال کے فکروفلسفہ سے محبت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اقبالیات کے موضوع پر درجن سے زائد کتابیں لکھ ڈالیں. جن میں بیانِ اقبال(فکر اقبال کا توضیحی بیان) ، تفہیماتِ بانگ درا(مطالب و شرح)، تفہیماتِ بال جبریل(مطالب و شرح)، تفہیماتِ ضرب کلیم(مطالب و شرح)، تفہیماتِ ارمغان حجاز اردو (مطالب و شرح)، تفہیماتِ کلیاتِ اقبال اردو (مطالب و شرح)، اقبال لاہور میں، اقبال خواتین کی نظر میں، اقبال سیالکوٹ میں، تفہیماتِ اسرار خودی(مطالب و شرح)، تفہیماتِ رموز بے خودی(مطالب و شرح)، تفہیماتِ پیام مشرق(مطالب و شرح) ،تفہیماتِ زبور عجم(مطالب و شرح) ،تفہیماتِ جاوید نامہ(مطالب و شرح) ،تفہیماتِ مثنوی پس چہ باید کرد(مطالب و شرح) ،تفہیماتِ ارمغان حجاز فارسی(مطالب و شرح) اور تفہیماتِ کلیاتِ اقبال فارسی (مطالب و شرح) شامل ہیں. وہ کلامِ اقبال اردو اور فارسی کی فرہنگ بھی لکھ رہی ہیں. وہ پاکستان بھر میں شاعر مشرق کے اردو اور فارسی کلام کی شرح لکھنے والی کم عمر خاتون شارح ہونے کے ساتھ وہ واحد نوجوان بھی ہیں جنہوں نے علامہ محمد اقبال پر سب سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں.حال ہی میں ان کے افسانوی مجموعے پر بی ایس اردو کا تحقیقی مقالہ بھی لکھا جاچکا ہے. وہ مختلف ادبی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہونے کے علاوہ علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں اعزازت اور ایوارڈز بھی حاصل کرچکی ہیں.
میرے دل میں حمیرا صاحبہ سے ملاقات کی دیرینہ خواہش موجود تھی. شہر اقبال کی اس عظیم شخصیت سے رابطہ تو تھا لیکن کبھی ملاقات نہیں ہوسکی. خواہش کو پورا کرنے کی غرض سے فون پر رابطہ ہوا اور ملاقات کا مناسب وقت لیا. میں ہفتے کو شام سات بجے گھر سے روانہ ہوئی۔ سفر کی مشکلات برداشت کیں لیکن حوصلہ نہیں ہارا. میں تقریباً صبح چھ بجے سیالکوٹ پہنچ چکی تھی.لاری اڈے سے رکشہ پکڑا اور بذریعہ فون گھر کا پتہ معلوم کیا. میں بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچ چکی تھی. رکشے سے اتر کر کرایہ ادا کیا اور تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے گھر کے دروازے تک پہنچی۔ ذہن سوچوں میں الجھا ہوا تھا کہ آنکھوں کے سامنے سادہ کپڑوں میں ملبوس ایک لڑکی کو کھڑا پایا. میں نے اپنا مختصر تعارف کروایا اور حمیرا صاحبہ کے متعلق پوچھا. میں ابھی پوچھ ہی رہی تھی وہ مسکرا کو کہنے لگیں. جی میں حمیرا جمیل ہوں. میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا دل اور دماغ میں عجیب کشمکش جاری تھی. کیا واقعتاً یہی کم عمر نوجوان اقبال شناس ہیں؟میرے ذہن نے جو نقشہ کھنچا وہ اُس سے بہت مختلف تھیں. مختصر تعارف کے بعد انہوں نے گھر آنے کی دعوت دی. میں اکیلی تھی اور گاؤں سے سیالکوٹ پہنچتے ہوئے تھک بھی چکی تھی۔ گھر میں داخل ہوکر دیکھتی ہوں کہ چند قدم کے فاصلے پر صحن میں موجود درخت کی چھاؤں کے نیچے بیٹھے گھر کے دیگر افراد گپ شپ میں مصروف ہیں . گھر کے لوگوں کو میرے حوالے سے بتایا گیا اور میں کچھ دیر کرسی پر بیٹھ کر سب کی گفتگو سنتی رہی لیکن گفتگو کے دوران بھی وہ مجھے بالکل الگ دکھائی دیں.ناشتے کا وقت ہورہا تھا اور انہوں نے میرے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کیا. میرے لیے یہ سب کسی خواب سے کم نہیں تھا. پُرتکلف ناشتہ کرنے کے بعد وہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئیں۔ ایک منٹ کے لیے بھی میری نگاہیں اُن سے نہیں ہٹ سکیں. ماشاء اللہ خوبصورتی اور کشش جو بآسانی ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا سکتی تھی. دو گھنٹے کی ملاقات میں اُن کی شخصیت کے متعلق بہت کچھ جاننے کا موقعہ ملا. عاجزانہ رویہ اور بار بار ایک ہی بات کا ذکر میں ایک عام انسان ہوں۔ آپ نے مجھے ہر گز بھی خاص نہیں سمجھنا. اور ایک بات جو انہوں نےسختی سے مجھے سمجھائی کہ آپ نے آئندہ کبھی میرے احترام میں کھڑے نہیں ہونا. آپ خود قابلِ احترام ہیں اور احترام دل میں ہونا چاہیے. مجھے احساس تک نہیں ہوا دو گھنٹے کا وقت کیسے گزر گیا؟ دوپہر کا وقت ہورہا تھا میں نے جانے کی اجازت چاہی. وہ خود بھی کسی کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانے کی تیاری کررہی تھیں.انہوں نے فکرمندی کے عالم میں کہا آپ میرے ساتھ چلیں. میں ڈرائیور سے کہوں گی وہ آپ کو بس اڈے تک چھوڑ دے گا۔ حتیٰ کہ جب تک میں گھر نہیں پہنچی وہ میرے ساتھ رابطے میں رہیں۔ گھر پہنچنے پر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے میرے ہاتھ کوئی قیمتی چراغ لگ گیا ہو۔ اور آخر میں صرف یہ کہہ کر بات ختم کرنا چاہوں گئی۔ میں یہ ملاقات کبھی بھول نہیں سکتی کیونکہ یہ میری زندگی کا یادگار دن اور یادگار لمحات تھے۔

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

آٹھواں الفا اسپورٹس فیسٹیول شاندار انداز میں اختتام پذیر، 70 تعلیمی اداروں کے ساڑھے سات ہزار طلبہ کی شرکت

کراچی، (رپورٹ، ذیشان حسین) الفا ایجوکیشن نیٹ ورک کے زیر اہتمام آٹھواں الفا اسپورٹس فیسٹیول …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے