فاطمہ کیا اردو کی کتاب ہے تمہارے پاس؟ یہ آواز عائشہ کی تھی جو کہ حسب معمول سکول میں اپنی کتاب لانا بھول گئی تھی۔ یہ لو آج سے یہ کتاب تمہاری یہ میرے پاس رہے گی تاکہ تم جب کتاب نہ لاؤ تو میں تمہیں یہ دوں فاطمہ نے جواب دیا۔ اب یہ ہوئی نا سمجھداری کی بات عائشہ کے چہرے پر معصومانہ مسکراہٹ تھی۔ فاطمہ نے کہا اردو کی کتاب میری پسندیدہ کتاب ہے اس میں موجود ہر حرف مجھے زبانی یاد ہے اور میری پسندیدہ نظم اقبال کی نظم فاطمہ بنت عبداللہ ہے۔ تمہارے نام کی وجہ سے۔ عائشہ نے کہتے ساتھ ہی ایک زور کا قہقہہ لگایا کہ فاطمہ مسکراتے ہوئے بولی شاید ہاں مجھے لیبیا کی اس چھوٹی سی لڑکی سے سچی عقیدت ہے اس کی زندگی کا مقصد آسمانوں کی بلندی کو چھونا تھا اگرچہ اس کی زندگی چھوٹی تھی مگر معیاری تھی ۔ میری بھی یہی دعا ہے کہ اللہ مجھے چھوٹی مگر معیاری زندگی سے نوااااززز یہ الفاظ ان دھماکوں اور گولیوں کے شور میں کہیں کھو سی گئی۔ فاطمہ زرد چہرے کے ساتھ اپنی دوست عائشہ کو دیکھ رہی تھی جس کا چہرہ اب سرخ خون سے رنگا ہوا تھا گولی نے اس کی خوبصورت آنکھوں کو نشانہ بنایا تھا۔ فاطمہ نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے عائشہ کے بے جان ہاتھوں کو جنجھوڑنا چاہا کے قریب پڑی کتاب پر اس کی نظر پڑی جس پر اقبال کی اسی نظم والا صفحہ کھلا تھا اس نے کتاب کو ہاتھوں میں لیا وہ ہلکی سی کتاب آج فاطمہ کو ایک بھاری پتھر کی مانند لگ رہی تھی کہ اچانک فاطمہ کو یوں لگا کہ جیسے اچانک اس کے دل کو کسی نے زور سے دبا دیا ہو۔ اقبال کی وہ نظم فاطمہ کے خون سے رنگ گئی تھی فاطمہ کی نظر ایک شعر پر پڑی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
فاطمہ زمین پر گر گئی اور اس کے ہاتھوں سے کتاب بھی چھوٹ کر زمین پر گر گئی۔ فاطمہ چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ اس جہاں فانی سے کوچ کر گئی۔