تازہ ترین
Home / اہم خبریں / جامعہ کراچی میں صنفی بنیاد پر تشدد اور ٹیکنالوجی کے منفی اثرات پر سیمینار

جامعہ کراچی میں صنفی بنیاد پر تشدد اور ٹیکنالوجی کے منفی اثرات پر سیمینار

کراچی، (رپورٹ، ذیشان حسین) رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد اور ہراسانی کوئی نئی بیماری نہیں بلکہ ایک پرانی معاشرتی خرابی ہے، تاہم جدید ٹیکنالوجی نے اس مسئلے کو مزید سنگین اور عام کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی و معاشی نظام کی کمزوریاں صنفی مساوات کے فروغ میں رکاوٹ ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں احترام، مساوات اور شعور اجاگر کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے آگاہی سیمینارز میں لڑکوں کی شمولیت زیادہ ہونی چاہیے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ صنفی امتیاز اور ہراسانی معاشرے کے لیے کس قدر نقصان دہ ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے مزید کہا کہ جب پاکستان کی وزیراعظم ایک خاتون بن سکتی ہیں تو کراچی کی ایک بیٹی بھی شہر کی میئر بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے لیے واضح ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے تاکہ وہ ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی بھی طرح کے صنفی تعصب یا تشدد کو فروغ نہ دے سکیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم جامعہ کراچی کے زیر اہتمام چائنیز ٹیچر میموریل آڈیٹوریم میں منعقدہ سیمینار بعنوان ’’ٹیکنالوجی کے ذریعے ہونے والا صنفی بنیاد پر تشدد: ایک صنفی خطرہ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ صنفی تشدد کو روکنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہراسانی، بلیک میلنگ اور دھمکیوں کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، جس کے سنگین اثرات ذہنی صحت اور سماجی آزادی پر پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صنفی تشدد کے مسئلے کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کے نفسیاتی اثرات پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایک محفوظ اور متوازن معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

سپریم کورٹ کی وکیل ڈاکٹر رعنا خان نے کہا کہ ہراسانی اور صنفی امتیاز کا سامنا صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مردوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ متاثرہ افراد کو معاشرتی دباؤ سے گھبرانے کے بجائے بلا خوف و جھجھک اپنی آواز بلند کرنی چاہیے، کیونکہ خاموشی مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد سے متعلق قوانین موجود ہیں، تاہم یہ تب ہی مؤثر ثابت ہوں گے جب متاثرہ فریق انصاف کے حصول کے لیے عملی قدم اٹھائے۔

رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ سعید نے کہا کہ ٹیکنالوجی بلاشبہ ترقی کا ذریعہ ہے مگر اس کے منفی استعمال سے جرائم کی نئی اقسام سامنے آرہی ہیں۔ انہوں نے اساتذہ کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں طلبہ کو ٹیکنالوجی کے مثبت اور محفوظ استعمال کی تربیت دینی چاہیے۔ سیمینار کے دوران ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی سینئر رکن مہناز رحمن اور ہائی کورٹ سندھ کے وکیل ڈاکٹر شاہ رخ شاہنواز نے بھی صنفی تشدد کے سماجی و قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ پروگرام کوآرڈینیٹر ڈاکٹر علیہ علی بلگرامی نے بتایا کہ سیمینار کا مقصد نوجوان نسل کو یہ سمجھانا تھا کہ وہ ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں استعمال کریں اور اس کے منفی اثرات سے محفوظ رہیں۔

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

اخباری صنعت کی نمائندہ تنظیم ایپنک کے الیکشن 16 نومبر کو منعقد ہوں گے، حبیب الدین جنیدی چیف الیکشن کمشنر، امتیاز فاران اور لیاقت ساہی ممبران مقرر

کراچی، (رپورٹ، ذیشان حسین/اسٹاف رپورٹر) آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائز کنفیڈریشن (ایپنک) کے مشترکہ اجلاس …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے