حکومت سندھ 2025 تعمیر، ترقی اور عوامی فلاح کا نیا بیانیہ
تحریر: محمد فاروق (راجپوت)
آئیے آج سندھ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔جمہوریت اور عوامی خدمت کا سفرجمہوری نظامِ حکومت کی کامیابی کا پیمانہ محض نعرے یا وعدے نہیں ہوتے بلکہ وہ ٹھوس اقدامات ہوتے ہیں جو عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیاسی قیادت عوامی مسائل کو اپنی ترجیح بناتی ہے، وسائل کی کمی کے باوجود راستے نکل آتے ہیں۔ سال 2025 سندھ کی سیاسی اور انتظامی تاریخ میں ایک ایسے ہی سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب صوبائی حکومت نے روایتی گورننس کے جمود کو توڑتے ہوئے تعمیر و ترقی کی نئی بنیادیں رکھیں۔ میرے سامنے اس وقت سندھ حکومت کی سالانہ کارکردگی رپورٹ موجود ہے۔ یہ دستاویز محض اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک بدلتے ہوئے سندھ کی کہانی ہے۔ ایک ایسا سندھ جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نکل کر اب اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہا ہے، جو توانائی کے بحران میں پورے پاکستان کو راستہ دکھا رہا ہے، اور جو صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ایک قابلِ تقلید ماڈل پیش کر رہا ہے۔اس نشست میں ہم کوشش کریں گے کہ اس رپورٹ کے ہر پہلو کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کیا واقعی سندھ میں وہ تبدیلی آئی ہے جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے؟
ٹرانسپورٹ سیکٹر، ایک ثقافتی اور معاشی انقلاب کا اہم جز ہے کسی بھی شہر یا صوبے کی معاشی ترقی کا اندازہ اس کے ٹرانسپورٹ سسٹم سے لگایا جا سکتا ہے۔ کراچی، جو پاکستان کا معاشی حب ہے، دہائیوں تک ایک بہترین پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم سے محروم رہا۔ ٹوٹی پھوٹی منی بسیں، چھتوں پر سفر کرتے مسافر اور گھنٹوں کے ٹریفک جام نے شہریوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔ تاہم، سال 2025 میں حکومت سندھ نے اس شعبے میں جو پیش رفت کی ہے، وہ حیران کن ہے۔رپورٹ کے مطابق ’پیپلز بس سروس‘ اور ’پنک بس سروس‘ کا جال اب صرف کراچی تک محدود نہیں رہا بلکہ حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپورخاص اور شہید بینظیر آباد تک پھیل چکا ہے۔ پنک بس سروس، جو خاص طور پر خواتین کے لیے شروع کی گئی تھی، محض ایک سفری سہولت نہیں بلکہ خواتین کی خودمختاری (Women Empowerment) کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ وہ خواتین جو پہلے ہراسانی کے ڈر یا رش کی وجہ سے ملازمتوں پر نہیں جا پاتی تھیں، اب باوقار طریقے سے سفر کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحول دوست الیکٹرک بسوں (EV Buses) کا اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت ماحولیاتی آلودگی جیسے سنجیدہ مسئلے سے بھی نبردآزما ہے۔اسی تناظر میں ایک اور اہم اقدام ’ای چالان سسٹم‘ (E-Challan System) کا نفاذ ہے۔ ماضی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور رشوت ستانی ایک کلچر بن چکا تھا۔ ٹیکنالوجی کے استعمال نے جہاں انسانی مداخلت کو کم کیا ہے وہیں شہریوں میں قانون کی پاسداری کا شعور بھی اجاگر کیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ ای چالان سے حاصل ہونے والا ریونیو دوبارہ سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک کے نظام کی بہتری پر خرچ ہو رہا ہے، جو کہ ایک پائیدار ماڈل ہے۔
صحت عامہ، سندھ کا ماڈل اور انسانی خدمت پرمبنی صحت کا شعبہ وہ واحد میدان ہے جہاں سندھ حکومت کی کارکردگی پر مخالفین بھی کھل کر تنقید کرنے سے قاصر ہیں۔ پیپلز پارٹی کا فلسفہ یہ ہے کہ صحت کی سہولیات خریدنا نہیں بلکہ مفت حاصل کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ سال 2025 کی رپورٹ اس فلسفے کی عملی تصویر پیش کرتی ہے۔این آئی سی وی ڈی (NICVD) کا نیٹ ورک، جو پہلے صرف کراچی تک محدود تھا، اب صوبے کے دور دراز اضلاع اور تعلقہ کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ ’چیسٹ پین یونٹس‘ (Chest Pain Units) کا قیام ایک انقلابی قدم ہے۔ ذرا تصور کیجیے، بدین یا تھر کے کسی گاؤں میں کسی شخص کو دل کا دورہ پڑتا ہے۔ پہلے اسے کراچی پہنچنے میں کئی گھنٹے لگتے تھے اور اکثر مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتے تھے۔ آج اسے اپنے قریبی قصبے میں ہی ابتدائی طبی امداد اور علاج میسر ہے۔ یہ صرف سہولت نہیں، یہ زندگی بچانے کا عمل ہے۔رپورٹ میں گمبٹ انسٹی ٹیوٹ (GIMS) اور ایس آئی یو ٹی (SIUT) کے اشتراک سے کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کی سہولیات کا ذکر بھی نمایاں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ کے سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈی کی پرچی سے لے کر مہنگے ترین آپریشن اور ادویات تک سب کچھ مفت ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ہم دیگر صوبوں کا جائزہ لیں تو وہاں ہیلتھ کارڈ کے نام پر انشورنس کمپنیوں کو نوازا جا رہا ہے، جبکہ سندھ حکومت براہِ راست اپنے ہسپتالوں کو مضبوط کر رہی ہے تاکہ غریب آدمی کو علاج کے لیے کسی کارڈ کی بھی ضرورت نہ پڑے۔
ہائیر ایجوکیشن، نوجوانوں کے مستقبل کا تحفظ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا زینہ ہے۔ بدقسمتی سے وفاقی سطح پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے بجٹ میں مسلسل کٹوتیوں نے ملک بھر کی جامعات کو شدید مالی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ ایسے وقت میں جب وفاق ہاتھ کھینچ رہا تھا، سندھ حکومت نے اپنے نوجوانوں کا ہاتھ تھاما۔کارکردگی رپورٹ کا ایک روشن باب وہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے جامعات کے لیے 41 ارب روپے کی خطیر گرانٹ مختص کی ہے۔ یہ پاکستان کی کسی بھی صوبائی حکومت کی جانب سے ہائیر ایجوکیشن کے لیے دی جانے والی سب سے بڑی امداد ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ فیسوں میں اضافہ نہ کیا جائے اور غریب والدین کے بچے تعلیم سے محروم نہ ہوں۔ جامعہ کراچی، سندھ یونیورسٹی جامشورو، اور دیگر تعلیمی اداروں کو نہ صرف تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز ملے بلکہ تحقیق اور ترقیاتی کاموں کے لیے بھی وسائل فراہم کیے گئے۔اس کے علاوہ سندھ حکومت نے طلبہ بالخصوص طالبات کو اسکولوں تک لانے کے لیے وظائف کی رقم میں اضافہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق سیلاب 2022 میں تباہ ہونے والے ہزاروں اسکولوں کی عمارتیں دوبارہ تعمیر کی گئی ہیں اور وہاں فرنیچر، سولر پینلز اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔
ہاؤسنگ اور سماجی تحفظ، سیلاب کے بعد کی تعمیرِ نوسال 2022 کے سیلاب نے سندھ کے بنیادی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ ناقدین کا خیال تھا کہ ان لوگوں کی بحالی میں دہائیاں لگ جائیں گی۔ لیکن سال 2025 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ حکومت سندھ نے ”تباہی کو موقع میں بدلنے” (Building Back Better) کے اصول پر عمل کیا۔دنیا کا سب سے بڑا ہاؤسنگ پراجیکٹ سندھ میں جاری ہے جس کے تحت 20 لاکھ سے زائد گھر تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ اس منصوبے کی سب سے خوبصورت اور تاریخی بات یہ ہے کہ ان گھروں کے مالکانہ حقوق (Title Deeds) گھر کے مردوں کو نہیں بلکہ خواتین کو دیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک خاموش سماجی انقلاب ہے۔ دیہی سندھ جہاں عورت کا جائیداد میں حصہ نہ ہونے کے برابر تھا، وہاں اب لاکھوں خواتین اپنے گھر کی مالکن بن چکی ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف انہیں معاشی تحفظ فراہم کر رہا ہے بلکہ خاندان اور معاشرے میں ان کے رتبے کو بھی بلند کر رہا ہے۔اسی طرح ماہی گیروں کے لیے ساحلی علاقوں مبارک ولیج اور ہاکس بے میں جدید رہائشی کالونیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ حکومت ماہی گیروں کو ’آف سیزن‘ (جب مچھلی کے شکار پر پابندی ہوتی ہے) کے دوران مالی امداد فراہم کرتی ہے تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔
زراعت اور معیشت، کسان خوشحال تو سندھ خوشحال سندھ ایک زرعی صوبہ ہے اور اس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں مہنگی کھاد، بیج اور پانی کی کمی نے کسانوں کی کمر توڑ دی تھی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت نے سال 2025 میں ’بینظیر ہاری کارڈ‘ (Benazir Hari Card) کا اجرا کیا۔یہ کارڈ کسانوں کی معاشی آزادی کا پروانہ ہے۔ اس کے ذریعے حکومت چھوٹے کاشتکاروں کو براہ راست کیش ٹرانسفر، سبسڈی اور زرعی آلات فراہم کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گندم کی 4000 روپے فی من اور گنے کی 450 روپے فی من امدادی قیمت مقرر کرنے سے دیہی معیشت میں 300 ارب روپے سے زائد کا سرمایہ منتقل ہوا۔ یہ پیسہ جب کسان کی جیب میں آیا تو منڈیوں میں رونق بڑھی اور مجموعی معیشت کا پہیہ چلاتا دکھائی دیا۔آبپاشی کے نظام میں بہتری کے لیے نہروں کی لائننگ (Lining) کا کام تیزی سے مکمل کیا گیا ہے۔ ٹیل (Tail) کے آبادگارجو برسوں سے پانی کو ترس رہے تھے، رپورٹ کے مطابق اس سال انہیں ان کے حصے کا پورا پانی ملا ہے۔ یہ پانی کی منصفانہ تقسیم کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔
توانائی کا شعبہ تھر اور ونڈ انرجی،پاکستان کے توانائی بحران کا حل سندھ کے پاس ہے۔ شہید بینظیر بھٹو کا خواب تھا کہ تھر کا کوئلہ پاکستان کو روشن کرے گا، اور آج بلاول بھٹو کی قیادت میں سندھ حکومت اس خواب کو حقیقت کا روپ دے چکی ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ سال 2025 میں تھر کول بلاک ون اور بلاک ٹو سے بجلی کی پیداوار اپنی پوری صلاحیت پر جاری رہی جس نے نیشنل گرڈ کو سستی بجلی فراہم کی۔لیکن بات صرف کوئلے تک محدود نہیں۔ سندھ حکومت نے قابلِ تجدید توانائی (Renewable Energy) پر بھی بھرپور توجہ دی ہے۔ ٹھٹھہ اور جھمپیر کی ونڈ کوریڈورز (Wind Corridors) میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے نئے منصوبے لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ’روشن سندھ پروگرام‘ کے تحت ان دور دراز گوٹھوں اور دیہاتوں میں جہاں ٹرانسمیشن لائن بچھانا ممکن نہیں تھا، وہاں ہر گھر کو سولر پینل اور بیٹری فراہم کی گئی ہے۔ یہ اقدام اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت ترقی کے ثمرات کو معاشرے کے آخری فرد تک پہنچانا چاہتی ہے۔
امن و امان اور گڈ گورننس،امن و امان کے بغیر ترقی کا کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ سندھ کے کچے کے علاقے (Riverine Areas) گزشتہ کچھ عرصے سے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے۔ رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ سال 2025 میں سندھ پولیس نے رینجرز کے ساتھ مل کر ان علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشنز کیے۔ جدید ٹیکنالوجی، ڈرونز اور بکتر بند گاڑیوں کے استعمال سے ریاست کی رٹ بحال کی گئی اور ہائی ویز کو مسافروں کے لیے محفوظ بنایا گیا۔کراچی میں اسٹریٹ کرائم ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے روایتی پولیسنگ کے ساتھ ساتھ ’سیف سٹی پروجیکٹ‘ (Safe City Project) پر کام کی رفتار تیز کی۔ شہر بھر میں ہزاروں نئے کیمرے نصب کیے گئے اور پولیس کی نفری میں اضافہ کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے اسٹریٹ کرائم کے مقدمات کے لیے الگ پراسیکیوشن کا نظام بنانے پر غور کیا گیا تاکہ ملزمان کو جلد سزائیں مل سکیں۔گڈ گورننس کے باب میں ’کھلی کچہریوں‘ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ وزراء اور افسران کا ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکل کر عوام کے درمیان جانا اور ان کے مسائل سننا ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ پانی چوری روکنے کے لیے واٹر کارپوریشن کی مہم نے بھی اچھے نتائج دیے ہیں اور بااثر مافیا کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
امید کا نیا سفر، اس تجزیے کا نچوڑ یہ ہے کہ سال 2025 میں سندھ حکومت کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر، منظم اور نتائج پر مبنی رہی ہے۔ بلاشبہ مسائل اب بھی موجود ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور موسمیاتی تبدیلیاں بڑے چیلنجز ہیں۔ کراچی کا سیوریج سسٹم ہو یا دیہی سندھ میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ ابھی بہت کام باقی ہے۔ لیکن رپورٹ میں درج اقدامات سمت کے درست ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔سندھ حکومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر نیت میں خلوص ہو تو تھر کے ریگستان سے بھی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اور سیلاب زدہ علاقوں میں بھی زندگی کی رمق دوبارہ جگائی جا سکتی ہے۔ یہ رپورٹ صرف حکومت کی کامیابی نہیں بلکہ سندھ کے عوام کے اعتماد کی بھی فتح ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان منصوبوں کا تسلسل برقرار رکھا جائے اور نگرانی کا نظام مزید سخت کیا جائے تاکہ ترقی کا یہ سفر کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہ سکے۔سال 2026 میں عوام کی توقعات اب مزید بڑھ گئی ہیں۔ امید ہے کہ سندھ حکومت اپنی رفتار کو نہ صرف برقرار رکھے گی بلکہ اسے مزید تیز کرے گی، تاکہ سندھ حقیقی معنوں میں پاکستان کا سب سے ترقی یافتہ اور خوشحال صوبہ بن سکے۔