تمہارے گزر جانے پر غم کیوں
ابھی اگلی امیدیں اور تیرے ساتھ وابستہ ہے
تیرا ساتھ ابھی بچھڑتے کنارے پہ ہیں
گر تیرے سنگ مجھ کو اور چلنا ہے
تم سے شکایتیں تو کچھ نہیں
ہاں مگر بیتے پل مجھ کو یاد آتے ہیں
تجھ سے جڑی نئی امیدیں مجھ کو اکساتی ہے
مگر پھر ملنے کے عہد میں پہلی کوتاہیاں ستاتی ہے
کہیں پھر دسمبر ہاتھ سے نکل نہ جائے
اور میں لفظوں کے چراغ جلانے میں دھیمی پڑ جاؤ
تم بھی ضائع ہو جاؤ، اور وقت
کا سہارا بھی دم توڑ دے
اس سے پہلے منزلوں کا راہی بننا ہے
کچھ بڑا کرنے کا عزم کرنا ہے
ابھی نئے ارادوں کا عہد کرنا ہے
پھر ان کو پانےکی کاوشوں میں تم تک پہنچنے کا سفر کرنا ہے
اک اور دسمبر بیت جانے کا غم تو نہیں
ہاں مگر نیا سال، نئی اُمنگوں کے سنگ
ہم تجھ سے پھر ملنے، ارادوں کے مسافر چل پڑے
Tags Dr.Ghulam Murtaza عائشہ صفدر