کراچی (رپورٹ: ذیشان حسین) پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیف آرگنائزر اقبال ہاشمی نے کہا ہے کہ حکومت کورونا میں انتظامی معاملات کو مس ہینڈل کر رہی ہے۔ آن لائن سسٹم کو کامیاب بنانے کے لئے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی گئی۔ آن لائن کلاسز سسٹم انٹر کی حد تک بالکل بے اثر ہے۔ اس لیول پر طلبہ کو تعلیم اور تربیت دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آن لائن امتحان کا سسٹم ناقص ہے۔ حکومت نے چیک اور بیلنس کا کوئی نظام وضع نہیں کیا ہے۔ بچے نہ صحیح معنوں میں کلاس لے رہے ہیں اور نہ ڈھنگ سے امتحانات دے پا رہے ہیں۔ پاکستان میں دو قومیں بستی ہیں ایک امیر اور ایک غریب، غریب کا نہ صرف استحصال ہو رہا ہے بلکہ انہیں معذور بنایا جا رہا ہے۔ حکومت سرکاری سطح پر آن لائن پروفیشنل کورسز کرائے اور سرٹیفیکیشن پروگرام شروع کرے تاکہ ہمارے نالج ورکرز کی مانگ میں اضافہ ہو۔ انٹر تک فزیکل کلاسز لازمی ہونی چاہئیں۔ حکومت میں صلاحیت ہے تو اسکولوں کو تفصیلی ایس او پیز جاری کرے۔ بچوں کو ویکسین پہلے لگائی جائے اور اسکولوں میں اس کے انتظامات کئے جائیں۔ احساس پروگرام کے لئے مختص بجٹ تعلیم کے شعبے میں استعمال کیا جائے۔ پاسبان پریس انفارمیشن سیل سے جاری کردہ بیان میں اسکولوں اور کالجوں کی بندش اور آن لائن کلاسز پر گفتگو کرتے ہوئے پی ڈی پی کے چیف آرگنائزر اقبال ہاشمی نے مزید کہا کہ حکومت تعلیمی بجٹ میں مسلسل کٹوتی کیے جارہی ہے اور مختص کیا گیا بجٹ بھی پورا نہیں دیا جارہا ہے۔ جس کی بنا پر اسکالر شپ پروگرامز بند ہوگئے ہیں۔ لاک ڈاؤن اور کورونا ضابطوں کا نہ صرف تعلیمی اداروں پرمنفی اثر پڑا وہیں بچوں کی تعلیمی صلاحیتوں میں بھی واضح کمی واقع ہوئی۔ کورونا وائرس کے باعث طلبہ کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ کوویڈ کے باعث تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے اور ٓان لائن کلاسز شروع کی گئیں۔ کئی علاقوں کے طلبہ انٹرنیٹ سروس نا ہونے یا خراب ہونے کی وجہ سے کلاسز نہیں لے سکے۔ ان طلبہ کے خسارے کا ذمہ دار کون ہے؟ کچھ طلبہ غربت اور مالی مشکلات کے باعث آن لائن کلاسز سے مستفید نہیں ہو سکے، کیا غریب کے بچے کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ہے؟ حکومت کے پاس انٹلیکچوؤل استعداد نہیں ہے۔ اقربا پروری کا شکار نظام نارمل حالات کو نہیں سنبھال سکتا مشکل حالات کو کیا سنبھالے گا؟ ہماری سب سے بڑی ایکسپورٹ مین پاور ہے۔ ہم ہر مہینے براہ راست دو ارب ڈالر اور ایک ارب ڈالر بالواسطہ طریقوں سے اوور سیز پاکستانیوں کے ترسیل زر سے کماتے ہیں لیکن حکومت کے پاس مین پاور ڈیولپمنٹ کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ہم میں اور بنگلہ دیش میں فرق یہ ہے کہ ہم احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت لوگوں کو بھکاری بنا رہے ہیں جبکہ بنگلہ دیش نہ صرف اپنے ہیومن ریسورس کی تربیت کر رہا ہے بلکہ انہیں کارآمد شہری بنانے کے لئے انہیں خیرات نہیں دے رہی ہے بلکہ گرامین بینک کے ذریعے قرض دے رہی ہے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ جو نوجوان اپنی محنت اور لیاقت کے بل بوتے پر تعلیم حاصل کر لیتے ہیں وہ تو زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں لیکن غریب طبقہ کی سماجی شمولیت کے لئے حکومت کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے۔
![]()