انسان جس جگہ اپنی زندگی کے ابتدائی برس گزارتا ہے اُس جگہ سے جذباتی وابستگی ہو جانا تو فطری ہے۔ جیسے جیسے انسان شعور حاصل کرتا ہے ، اُسے اپنے اردگرد کے ماحول میں بہت سی خرابیوں کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ وطنِ عزیز پاکستان کی نوجوان نسل بھی ایسے ہی احساسات کا شکار ہے ۔ اپنی زندگی کا ابتدائی دور گزارنے کے بعد جب نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیروزگاری ، ناانصافی اور مہنگائی جیسی مشکلات کا جب نوجوانوں سے سامنا ہوتا ہے تو اُنھیں واحد راہِ فرار ملک سے باہر چلے جانا ہی ملتی ہے۔ کچھ نوجوان تو بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر اکثر ناکافی وسائل کی وجہ سے یہیں رہ کر کاروبار یا نوکری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ بڑھتی ہوئی خواہشات کے لیے جب نوکری سے ملنے والی تنخواہ یا کاروبار سے ملنے والا منافع کم پڑ جائے تو بجائے قناعت اختیار کرنے اور مزید محنت کرنے کے یہی نوجوان پریشانی کے عالم میں ملکی حالات کے شکوے کرتے نظر آتے ہیں۔ الغرض جہاں کچھ لوگ پیسے کی دوڑ میں آگے نکلنے کی خاطر ملک میں خرابی کا سبب بنتے ہیں تو وہیں کچھ اس دوڑ میں پیچھے رہ جانے کے خوف سے ملکی اصلاح میں رکاوٹ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیسہ کمانا برائی نہیں لیکن اس کے حصول کے لیے غلط رستہ اختیار کرنا اصل فساد کا سبب ہے۔ پاکستان ہمارا وطن ہے ۔ اسے بلند مقام پر پہنچانے والے یا پستی میں گرانے والے ہم ہی ہیں۔ اگر ہم رزق کمانے کے لیے ملک سے باہر ہوں تو بھی وطنِ عزیز کے لیے دعاگو رہیں اور وطن میں ہوں تو بھی صرف حلال رزق ہی کمائیں ۔ پاکستان کو پیسے سے زیادہ حلال ذرائع سے پیسہ کمانے والوں کی ضرورت ہے۔