Home / Home / عنوان۔G.T.A آئینی بلوچستان کی جدوجہد مقاصد اور وجود ۔۔۔ تحریر :محمد نسیم رنزوریار

عنوان۔G.T.A آئینی بلوچستان کی جدوجہد مقاصد اور وجود ۔۔۔ تحریر :محمد نسیم رنزوریار

قارئین کرام:
بلوچستان پاکستان کا وہ واحد بدقسمت صوبہ ہے کہ یہاں ہمیشہ اپنوں کی راہیں کرپشن میرٹ پامالی اور اقرباء پروری کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے جدا ہوئے ہیں یہاں گفتار کے غازی کردار کے انکاری اور عملی اقدامات میں کاہلی کارجحان عروج پر ہے ہر دور حکومت میں بلوچستان مختلف قسم کے مسائل کا شکار رہا ہے جو صوبے کی ترقی کے بجائے پسماندگی کا سبب بنتا رہا ہے۔ یہاں کے اکثر بڑے لوگ بڑے چور ہوتے ہیں ان سے تحقیقات تفتیشات کرنا انکے مزاج نازک کو مجروح کردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ اکثراوقات تنظیم کے متحد اراکین غلط اور غیرقانونی فیصلوں کی بنیاد پر مایوس ہوکر علیحدگی کیساتھ ساتھ الگ تنظیم وجود میں لاتے ہیں۔ اپنے حقوق کی جدوجہد اپنے آپ کے تحت شروع کرتے ہیں ۔یہ غیر آئینی و دستوری عمل نہ صرف مذھبی و سیاسی پارٹیز میں پایاجاتاہے بلکہ بلوچستان کے تعلیم صحت اور سپورٹس جیسے اہم شعبوں میں بھی عروج پر ہے جسکے صوبے کے ہر شعبے میں بڑے اثرات مرتب ہوچکے ہیں۔جسے مشکلات اور رکاوٹوں میں بہت اضافہ ہوچکا ہے ہر ڈیپارٹمنٹ مسائل کا گھڑ بن چکا ہے۔جسکی وجہ سے ہر شعبے کے ملازمین کو نہ صرف مشکلات پیدا ہوئے ہیں بلکہ نقصانات اٹھانا پڑ چکے ہیں۔بلوچستان کے اس پسماندگی بے قائدگی اور کرپشن جیسے ناسور میں تعلیمی نظام بھی متاثر ہوچکا ہے۔پسند و ناپسند کرپشن اور غیرآئینی و غیردستوری اقدامات کی وجہ سے بلوچستان کے اساتذہ وقت کے بدترین دور میں الجھ گئے ۔اس اختلافات کی تسلسل میں جی ٹی اے آئینی بلوچستان پاکستان وجود میں آئی اور بلوچستان بھر کے اساتذہ کرام کے جائز مطالبات مسائل کی ہمواری کیلئے جدوجہد شروع کی اور اپنے تنظیم سے کرپشن میرٹ پامالی جیسے ناسورکو ختم کرنے کا سرنو سے عہد اور آغاز کیا گیا۔تنظیمی اصول و قوانین کے تحت 25 مارچ 2018 کو جی ٹی اے آئینی کو باقائدہ وجود دیکراپنے جدوجہد اور عملی اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا جسے اب تک صوبہ بھرکے اساتذہ کرام کے مسائل حل اور جائز مطالبات و جائز حقوق حاصل کرچکے ہیں۔جی ٹی اے آئینی اپنے وجود رکھنے سے پہلے متحدہ طور پر انتہائی کوششیں اور جلوس مظاہرے کئے گئے کہ اساتذہ کرام کے مسائل کو مدنظر رکھ کر عملی اقدامات اجاگر کریں بدقسمتی سے انکے آواز حکام بالا تک نہیں پہنچ سکتے اسی وجہ و بنیاد پر جی ٹی اے آئینی نے الگ تنظیم بناکر اپنے حقوق کی حصول کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا جو اب روز بروز کامیابی کی طرف گامزن ہے اور بڑی حد تک مسائل بھی حل کرچکے ہیں۔جی ٹی اے آئینی کا مقصد ہے کہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہے جس کی کل آبادی تقریباً 2 کروڑ 94 لاکھ ہے۔ صوبہ بلوچستان میں مختلف اقوام آباد ہیں، جس میں پشتون، بلوچ، ہزارہ کثیر تعداد میں ہیں۔ اس صوبے کو پاکستان کی آزادی سے لے کر موجودہ دور تک ہر طرح سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ معدنیات سے مالا مال اور سونا اگلتی زمین آج بے بس و لاچار ہے۔ اس وقت تعلیم جیسے اہم اور بنیادی موضوع پر بات کرتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں معیاری تعلیم کی بات تو درکنار، غیر معیاری نظام تعلیم بھی خستہ حال اور شکستہ حال ہے۔ اس کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جا سکے اور کون اس کا جواب دہ ہے؟صوبہ بلوچستان کے مکتبی نظام پر سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان بھر میں کل 14 ہزار 978 سرکاری سکولز ہیں جن میں 10 ہزار 55 سکول لڑکوں کے، چار ہزار 238 لڑکیوں جب کہ 686 سکول لڑکوں اور لڑکیوں کے مشترکہ ہیں۔محکمہ تعلیم کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 11 ہزار 786 سکول فعال ہیں جب کہ تین ہزار 193 سکول غیر فعال ہیں۔ 13 ہزار 21 سکولز عمارت جب کہ 1958 سکول بغیر عمارت کے ہیں۔ جو عمارتی سکول ہیں ان میں 47 فیصد عمارتیں خستہ حال اور غیر اطمینان بخش ہیں۔ 9 ہزار سکول ایسے ہیں جہاں واش رومز کی سہولیات میسر نہیں ہیں یعنی ہر چار میں سے تین کو بیت الخلا کا مسئلہ ہے۔ 12 ہار 680 سکولوں میں پانی کی سہولت موجود نہیں ہے یعنی ہر 3 میں سے 2 سکولز کو پانی کی قلت درپیش ہے۔ ان کے علاوہ صوبے میں آٹھ ہزار چودہ سکولوں کی چاردیواری نہیں ہے جب کہ 11 ہزار 865 میں بجلی کا انتظام نہیں ہے یعنی ہر پانچ میں سے 4 میں بجلی نہیں ہے۔”الف اعلان“ تنظیم کے سروے کے مطابق بلوچستان میں 27 لاکھ بچوں کی عمر سکول جانے کی ہے، مگر اس میں صرف 9 لاکھ سکولوں میں ہیں باقی تقریباً 18 لاکھ بچے سکول سے باہر ہیں۔ پرائمری میں کثیر تعداد میں داخلے ہوتے ہیں، مڈل تک آتے آتے آدھے سے زیادہ سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ سکول چھوڑنے کی شرح خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔سروے کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کی 62 فیصد لڑکیاں سکول نہیں جاتیں، لڑکیوں کے پرائمری سطح پر داخلے کی شرح 35 فیصد ہے جب کہ میٹرک تک آتے آتے چار فیصد رہ جاتی ہے۔ 23 فیصد ایسی لڑکیاں ہوتی ہیں جو کبھی سکول گئی ہوں۔بلوچستان میں مردوں کی شرح خواندگی 37 فیصد اور خواتین کی 15 فیصد ہے۔ اساتذہ کی 17 فیصد منظور شدہ اسامیاں خالی ہیں۔ 30 فیصد اساتذہ ہر روز غیر حاضر رہتے ہیں۔یہ وہ سرسری تجزیاتی نگاہ تھی جس سے پورے بلوچستان کی تعلیمی معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے پیچھے کچھ بنیادی عناصر ہیں جیسے غربت، جنسی تفریق اور ٹرانسپورٹ کی کمی وغیرہ۔غربت نے عوام کو شعور کی راہ پر گامزن ہونے ہی نہیں دیا، نہ جنسی تفریق نے خواتین کی کامیابی کے راستے ہموار کرنے دیے بلکہ ہر جگہ پر اس تفریق نے شعور کے راستے میں روڑے اٹکائے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کی کمی کی وجہ سے ہر شخص کو شہر تک آنے جانے کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس عوض وہ تعلیمی سفر جاری نہیں رکھ سکتا ہے۔حکومت پاکستان اور چند پر اسرار طاقتوں نے تو پہلے ہی دن سے یہ عہد کیا ہے کہ بلوچستان کو آگے بڑھنے اور باشعور ہونے دینا ہی نہیں ہے کیوں کہ اگر یہ باشعور ہو گئے تو اپنا حق مانگنے لگ جائیں گے وہ جو کہ ان کو ہر گز ملنا نہیں چاہیے۔بلوچستان میں تعلیمی زبو حالی کی اس ویراں میدان کی وجہ سے جی ٹی اے آئینی وجود میں آئی جسکی اغراض و مقاصد بلوچستان کے اساتذہ کرام کے مسائل و جائزمطالبات کو حل کرنا ہے اور تعلیمی میدان میں درپیش مسائل کو ہموار کرنا ہے تاکہ اساتذہ اور طلباء باہمی کوشش سے تعلیمی سلسلے کو آگے لے جاسکیں اس حوالے سے جی ٹی اے آئینی نے روز اول ہی سے اپنے جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے عملی کام کا آغاز کرچکاہے انکے مطابق صوبائی حکومت 10 فیصد ڈسپنسری الاؤنس مقروض ہے وزیراعلیٰ بلوچستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبائی ملازمین کو 10 فیصد ڈسپنسری الاؤنس مہیاء کی جائے جی ٹی اے آئینی بلوچستان بھر کے ضلع تحصیل اور ڈویژن کابینوں کی وجود رکھتے ہیں جو صوبائی قائدین کے ہر فیصلے کو من وعن تسلیم کرتے ہیں اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔جی ٹی اے آئینی نے دوتاریخی اقدامات کرکے مراعات حاصل کرچکاہے ٹائم اسکیل جو عبدالغفار کدیزئی نے حاصل کیاتھا اسکے ساتھ اپگریڈیشن جو حاجی محیب اللہ غرشین نے حاصل کیا تھا۔ اسکے بعد بعض کاغذی تنظیم اور بعض بیروکریٹس جونئیر اساتذہ کے اپگریڈیشن میں رکاوٹ ڈالنے کی بے پناہ ناکام کوشش کی۔18 جون سال 2023 کو جونئیر اساتذہ کے اپگریڈیشن کا نوٹیفیکشن جاری کیاگیا جو بہت بڑی سودمند ثابت ہوگئی جونئیر اساتذہ کے اپگریڈیشن سے 47 ہزار اساتذہ مستفید ہوگئے یعنی J.V. T اور M.Q. اساتذہ B9 سے B 14 میں چلے گئے۔اسی طرح PET.. JAT.. JDM.. JET.. اساتذہ B14 سے B15 میں چلے گئے۔اس کامیابی کی بناء پر صوبہ بھر کے اساتذہ بھوک ہڑتالی اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔اپگریڈیشن کے نوٹیفیکشن کے اجراء میں بیروکریسی نے جی ٹی اے آئینی کیساتھ ظلم کی انتہاء کردی سمری کے شروع ہی دن سے PET.. JAT.. JDM… JAT. کو B16 دیناتھا لیکن انہوں نے B16 کی بجائے B15 دیا یہ مسئلہ اب بھی تنظیم کی ڈیمانڈ نوٹس میں شامل ہے۔جس سے کسی طور دستبردار نہیں ہونگے۔ہم اپنے جائز حقوق کے حصول کیلئے جی ٹی اے آئینی نے سال 2022میں 52 روز مسلسل احتجاج ریکارڈ کیا ہے بلوچستان کے تمام ڈیویژن اور اضلاع میں احتجاج مظاہرے کئے گئے کوئٹہ کیساتھ صوبہ بھر کے اساتذہ نے ایک بہت کامیاب احتجاجی مظاہرہ کیاگیا بعد میں بلوچستان اسمبلی کے سامنے جلسہ کیا گیا اسکے بعد آٹھ روز صوبائی قائدین تادم مرگ بھوگ ہڑتال پر بھٹائے گئے جن میں جی ٹی اے آئینی کے صوبائی صدر حاجی محیب اللہ غرشین عنایت اللہ کاکڑ محمدنعیم کاکڑ محمدقاسم اچگزئی سعیداحمدناصر میراحمدشاھد بنگلزئی منظور راہی بلوچ محمدناصر مینگل شامل تھیں ہی نے 38 روز تادم مرگ بھوک ہڑتال ریکارڈ کیاگیا۔آخر اس حد تک پہنچ گئے کہ زندگی اور موت کے کشمکش میں مبتلاء ہوکر سیول اسپتال کوئٹہ میں داخل کئے گئے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجونے صوبائی وزراء کے کمیٹی بھیج دی گئی جی ٹی اے آئینی کے قائدین سے گفت و شنید کرکے مسائل کے حل کرنے کے منٹس جاری کئے گئے اسی خاطر جی ٹی اے آئینی کے قائدین نے تادم مرگ بھوک ہڑتال صوبائی وزراء کی موجودگی میں ختم کرنے کا اعلان کیا 23 ستمبر 2022 کو بوائزسکاوٹس میں جی ٹی اے آئینی نے ایک پروقار تقریب منعقد کیا گیا جسکے مہمان خاص وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو تھے انکے ہمراہ صوبائی وزراء بھی تھیں اسی پروگرام میں تمام جونئیر اساتذہ کے اپگریڈیشن کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ باقی مسائل کے حل کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی جن میں چھ صوبائی وزراء شامل تھیں اور چھ جی ٹی اے آئینی کے صوبائی اور سنئیر قائدین شامل تھیں۔جی ٹی اے آئینی بلوچستان کے تعلیمی سرگرمیوں اور اساتذہ کے مسائل اور حقوق کی دفاع میں پیش پیش ہیں اگر تعلیم دشمن عناصر ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں تو اسکے برے اثرات صوبہ بھر کے تعلیمی نظام پر مرتب ہونگے جو قابل افسوس عمل ہے۔

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

وزارت اوورسیز کے فوکل پرسن اکرام الدین کی ایم پی اے حاجی فضل الٰہی سے ملاقات۔

ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال،اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل و مشکلات اور دیگر امور پر تبادلہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے