کراچی (رپورٹ: ذیشان حسین) پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی سندھ یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ 2018 کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں دائرآئینی درخواست 2009/2018 کی سماعت چیف جسٹس احمد علی شیخ اور جسٹس یوسف علی سید پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ سماعت میں حکومت سندھ کی جانب سے کمنٹس جمع کرائے گئے لیکن صوبائی اسمبلی کے اسپیکر نے کوئی کمنٹس جمع نہیں کرائے جس پر عدالت برہم ہوئی اور انہیں سختی سے تاکید کی کہ 14 ستمبر 2021 صبح گیارہ بجے ہونے والی سماعت میں اپنا جواب ضرور داخل کرائیں۔ واضح رہے کہ پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے سندھ حکومت کی جانب سے یونیورسٹیز بل میں ترمیم کر کے، سندھ کی یونیورسٹیز میں سیاسی اثر و رسوخ قائم کرکے یونیورسٹیز کی سیٹیں فروخت کرنے اور تعلیمی معیار کو تباہ کرنے کے اقدام کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی ہے۔ درخواست میں موٗقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ حکومت نے نامکمل کورم کے ذریعے عجلت میں بل میں ترمیم کرکے یونیورسٹیز ایکٹ 2018 بنایا جس میں وزیر اعلی سندھ کو تمام جامعات کا چانسلر بنا دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کے اختیارات ختم کر کے سندھ کی 24 یوینورسٹیز کے اختیارات سندھ کے وزیر اعلیٰ کو منتقل کر دیئے گئے۔ درخواست میں کہا گیا کہ یہ متنازعہ ایکٹ ہے اور اس ایکٹ سے سندھ کی 24 یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات کے مستقبل کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اس ایکٹ سے کرپشن کو فروغ ملے گا اور میرٹ کی پامالی ہوگی۔ سندھ حکومت سے پرائمری اور سیکنڈری اسکولز نہیں سنبھل پارہے، یونیورسٹیز کیسے سنبھالی جائیں گی؟ درخواست میں سندھ ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اس غیر قانونی اور متنازعہ بل کو ختم کرکے وفاقی حکومت کو سندھ کے یونیورسٹیز کے اختیارات واپس دلائے۔ سماعت کے بعد میڈیا نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے پی ڈی پی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا کہ یہ جنگ کسی سیاسی جماعت کی نہیں، عوام کی جنگ ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسلوں کے مستقبل اور بقا کی جنگ ہے جو پاسبان لڑ رہی ہے۔ کوئی قوم تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی اور سندھ حکومت کی مہربانی سے سندھ کا تعلیمی نظام بالکل تباہ ہو چکا ہے۔ میٹرک اور انٹر بورڈز کی تباہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سندھ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ہائر ایجوکیشن جو اب تک بربادی سے بچی ہوئی ہے اسے بھی زمیں بوس کیا جائے اس کا حال بھی میٹرک اور انٹر بورڈ جیسا بدترین کر دیا جائے تاکہ تعلیم ایک مذاق بن کر رہ جائے۔ پاسبان کے وائس چیئرمین پولیٹیکل افیئرز سہیل یعقوب نے کہا کہ یونیورسٹی ترمیمی اکٹ ایک انتہائی نازک معاملہ ہے جس میں ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اگر وزیر اعلی اس عہدے پر رہے تو ہائر ایجوکیشن میں بھی تمام تعیناتیاں میرٹ کے بجائے سیاسی طریقہ سے ہوں گی۔ سیاسی تعیناتیوں کے نتیجے میں ہمارا تعلیمی نظام جو پہلے ہی انتہائی بوسیدہ ہے وہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ انہوں نے تمام مکاتب فکر کے لوگوں سے درخواست کہ وہ یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ کو ختم کروانے میں پاسبان کا ساتھ دیں۔ پاسبان کے وکیل عرفان عزیز ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت سندھ کی جانب سے عجلت میں قانون سازی کر کے چیف منسٹر کو گورنر کی جگہ سندھ کی تمام جامعات کا چانسلر بنا دیا گیا۔ پاسبان کی آئینی درخواست لاکھوں طلبہ و طالبات کے تعلیمی مستقبل کو بچانے کا معاملہ ہے اور حکومت سندھ بہانے بناکر تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سندھ کی یونیورسٹیز کو سیاسی دباؤ، مداخلت، من مانی، بندربانٹ اور کرپشن سے بچاکر تعلیم دشمن اقدامات کو روک دیا جائے۔