“عادل جلدی کرو مجھے زور لیٹ کروا دیتے ہو تم” یہ آواز رایان کی تھی جو شیشے کے سامنے کھڑا اپنے بال سنوار رہا تھا اور ساتھ ہی اپنے چھوٹے بھائی کو اٹھانے کی ناکام کوشش بھی کر رہا تھا۔ عادل جوکہ حسب معمول دیر سے اٹھا تھا یونیفارم پہن کر بھائی کے ساتھ شیشے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور شرارتی نظروں سے رایان کو تاکنے لگا۔اسی اسنا میں والدہ بھی کمرے میں داخل ہوگئی اور عادل کو ہاتھ میں لانچ بوکس پکڑا کر نصیحت کی کہ بیٹا لنچ ضرور کر لینا۔ رایان جوکہ عادل کو غصےّ بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا گویا ہوا “امیّ آپ جانتی ہیں کہ یہ اب دوسری جماعت کا طلب علم ہے اتنا بڑا ہو گیا ہے پھر بھی یہ اتنا غیر ذمےدار ہے پڑھائی کے ساتھ ساتھ وقت کی پابندی کرنا بھی تو ضروری ہے نا” امیّ”بیٹا عادل آہستہ آہستہ سیکھ جائے گا اب جلدی کرو دیر ہو رہی ہے دونوں کو” سکول پہنچتے ہی دونوں اپنی اپنی کلاس میں چلے گئے تیسرے پیریڈ کا آغاز تھا تمام طالب علموں کو مین حال میں جمع کیا گیا تاکہ بچوں کو فرسٹ ایڈ کی معلومات سے آگاہ کیا جائے رایان عادل کو دیکھتے ہی بھاگ کر اس کے پاس آیا اور کہا “بھائی سوری آج سے میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو کبھی لیٹ نہیں کرواؤں گا”۔رایان نے چھوٹے بھائی کو گلے سے لگا لیا کہ اچانک گولیوں کی آواز نے سکول میں موجود سب لوگوں کے دلوں کو ہلا دیا دروازے کے پاس کھڑی استانی کی نظر سیاہ لباس میں ملبوس چھ آدمیوں پر پڑی جن کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا استانی نے چلا کر بچوں کو مخاطب کیا” سب بچے پچھلے دروازے کی طرف دوڑیں جلدددد ” یہ لفظ پورا ادا بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک گولی استانی کے سینے سے آرپار ہو گئی اور وہ زمین پر جا گری اور پھر ایک کے بعد ایک معصوم کلیاں سرخ خون میں رنگتی چلی گئی۔ عادل اور رایان گولیوں سے کسی طرح بچتے بچاتے پچھلے دروازے تک پہنچنے ہی والے تھے کہ اچانک عادل کے پاؤں کے نیچے اس کے دوست احد کا ہاتھ آگیا جو کہ خون میں رنگا ہوا تھا گولیوں نے اس کے سینے اور سر کو نشانہ بنایا تھا عادل وہیں روک گیا اور احد کو جھنجھوڑنے لگا رایان عادل کو اٹھانے کے لیے اس کی طرف لپکنے ہی والا تھا کہ ایک استانی نے اس کو پکڑ لیا اور کھینچ کر دروازے کی طرف لے آئیں کیونکہ ایک سپاہ پوش شیطان عادل کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس کو دھکا دے کر زمین پر گرانے کے بعد اس کے روشن دل کو تین گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ رایان اپنی جگہ سے ہل نہیں پا رہا تھا اس کے ذہن میں بس عادل کے وہی الفاظ گونج رہے تھے “بھائی میں آپ کو اب کبھی لیٹ نہیں کرواؤں گا”۔ اچانک اسی شیطان نے رایان پر گولی چلائی کہ ایک بچہ بھاگتے ہوئے رایان سے ٹکرایا تو گولی رایان کی آبدیدہ آنکھوں کو چھو کر گزر گئی وہ درد کے اس طوفان سے چلانے لگا پیچھے موجود استاد نے اسے کھینچا اور کسی طرح ایمبولینس تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے وہ درد کی شدت سے اب بیہوش ہو چکا تھا جب ہوش میں آیا تو اندھیرے کے سوا کچھ نا دیکھ سکتا وہ بس اپنی امی کی چیخیں سن پا رہا تھا جو کہ عادل کی شہادت کی خبر کو پرداشت نہیں کر پارہی تھی اور جب انہوں یہ معلوم ہوا کہ رایان اب کبھی نہیں دیکھ سکتے گا ان کا غم ناقابل برداشت ہو گیا۔ وہ آخری منظر تھا جو رایان نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر دوبار کچھ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اکثر بے وجہ چلانے لگتا کبھی رایان کو بلاتا تو کبھی اس شیطان سے التجا کرتا میرے بھائی کو چھوڑ دو مجھے مار دو ایسا نہیں کرو۔ وہ کئی راتیں جاگا کئی سال تک وہ بے حواس زندگی گزارتا رہا وہ اس منظر کو ہر دن دیکھتا تھا۔ آج چار سال گزرنے کے باوجود وہ ان خون میں رنگی لاشوں کو اور اپنے بھائی کی شہادت کو نہیں بھلا پایا تھا وہ آگے تعلیم حاصل کر رہا تھا پر اس کے دل میں ایک آگ روشن تھی وہ تعلیم کو ہر انسان تک پہنچانے چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ کوئی بھی شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو پائے۔ زندہ قومیں اپنے شہدا اور غازیوں کو کبھی نہیں بھولتی علم کی شمع تاابد روشن رہے گی۔