تازہ ترین
Home / آرٹیکل / شادی یا پارٹنر شپ

شادی یا پارٹنر شپ

عموماً جب بھی شادی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو ہمارے ذہن میں ایک ساتھی اور نصف بہتر، پارٹنر وغیرہ جیسے الفاظ آتے ہیں۔جب کہ اسلام کے مطابق شادی پارٹنرشپ نہیں ہے۔یہ ایک سربراہانہ نظام اور سرپرستی ہے۔اس کا ثبوت ہمیں قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ سے مل جاتا ہے۔جہاں خاندان میں مرد کی ایک درجہ برتری واضح ہے۔مسلم خواتین بھی ایسی پارٹنرشپ کی متمنی نہیں ہیں جیسی کہ آج کے دور کی فیمنیسٹس ہیں۔ لیکن وہ بھی تب جب بات ان کے حقوق اور پریولیجز کی ہو۔لیکن وہ اس پارٹنرشپ کو اس وقت قبول نہیں کرتیں جب بات ان کے فرائض کی ادائیگی کی ہو۔
اگر آدھی رات کو گھر میں کوئی چور گھس آئے یا زوردار دھماکے کی آواز آئے تو کیا حقوق نسواں کی علمبردار خاتون اس پارٹنرشپ کے مطابق اپنے شوہر کو یہ کہہ کر باہر جا کر حقیقت جاننے چور کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں گی کہ:” آپ آرام کیجئے۔میں دیکھ لیتی ہوں کہ گھر میں کوئی چور تو نہیں گھس آیا۔”
اگر گھر پہ کوئی نلکا یا پائپ ٹوٹ جائے، گٹر بند ہو جائے، کوئی فرینچر ٹوٹ جائے تو کیا ایسی خواتین شوہر سے کہیں گی:” آپ آرام کیجئے یہ میری ذمہ داری ہے میں ان سب کو فکس کر لوں گی۔” اور اوزار لے کر سنک کے نیچے گھس کر پائپ ٹھیک کر لے گی، فرنیچر ماریٹ لیجا کر ٹھیک کروا لے گی، بازار سے نیا نلکا لا کر لگا لے گی؟؟؟
اگر کسی دفتری مسئلے کا سامنا ہو ٹیکس جمع کروانا ہو ، بچوں کے بے فارم، آئی ڈی کارڈز، ڈومیسائل بنوانے ہوں، کسی چیز کی گمشدگی یا چوری کی رپورٹ پولیس اسٹیشن میں کروانی ہوتو کیا یہ خواتین شوہر سے کہیں گی:” میں سب کر لوں گی۔” اور آفسز اور کورٹ کے چکر لگا کر یہ سب پیپرز بنوا لے گی؟؟؟؟
ان کا جواب یقینا نفی میں ہی ہو گا۔زندگی کے تمام ایسے شعبوں اور کاموں میں کوئی شدید قسم کی حقوق نسواں کی علمبردار خاتون بھی شوہر سے ہی یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ یہ سب کام سرانجام دے۔اور اچانک یہ فیمینسٹس، روایتی گھریلو خواتین بن جاتی ہیں اور پارٹنرشپ کا تصور کہیں غائب ہو جاتا ہے۔اگر آپ کی پسند ناپسند کے مطابق پارٹنرشپ کا معیار بدل سکتا ہے تو اللہ کے بنائے اصول و ضوابط کی پاسداری کعتے ہوئے اپنا مقررہ کردار کیوں نہیں نبھایا جا سکتا؟
اگرچہ شادی شدہ زندگی میں بہت سے ایسے پہلو ہیں جو پارٹنرشپ سے ملتے جلتے ہیں۔ازدواج کو ایک دوسرے سے مشورہ کرنا چاہیے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے ہے۔اور ایک دوسرے کو ہر ممکن طریقے سے خوش رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ہے۔شوہر بیوی کے نان نفقے، گھر، کپڑے جوتے اور دیگر ضروریات زندگی کا ذمہ دار ہے اور یہ اس کا فرض ہے لیکن یہ پارٹنرشپ نہیں ہے۔کیونکہ بیوی پہ ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ایسے ہی بیوی کا فرض ہے شوہر کے گھر کی حفاظت اور اس کا خیال رکھنا بچے پیدا کرنا اور ان کی تربیت کرنا۔اور یہ بھی پارٹنرشپ نہیں کیونکہ کوئی بھی مرد بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔تو بہتر یہی ہے کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید کی بجائے اللہ کے متعین راستوں پہ چلیں اور زندگی کو آسان بنائیں۔

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

بکاؤ اہلِ قلم ۔۔۔ تحریر : صوفی محمد ضیاء شاہد ۔ کمالیہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے