کراچی ( نوپ نیوز) صدر انڈیپینڈینٹ اکنامسٹس اینڈ پالیسی پریکٹیشنرز اور معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت اور پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے جنرل سیکریٹری اقبال ہاشمی نے کہا ہے کہ پی آئی اے، ریلویز، ایس ایس جی سی، اور پی پی پی ایل کو کرپشن، اقربا پروری اور کوٹہ سسٹم کا دیمک چاٹ گیا۔ اداروں کو چلانا حکومت کا کام نہیں ہے۔ انہیں تجارتی اداروں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر چلانے کا موقع دیا جائے۔ کنٹرولنگ شئیر حکومت اپنے پاس رکھے لیکن مینجمنٹ میں مداخلت بند کرکے صرف ریگولیٹ کرنے پر توجہ دے۔ میرٹ کے علاوہ کوئی اور حل نہیں ہے۔ کوٹہ سسٹم اور سیاسی بنیادوں پر آیا ہوا سی ای او پرفارمنس نہیں دے سکتا۔ ان کمپنیز کے مینجمنٹ بورڈ میں حکومت کا صرف ایک ممبر ہونا چاہئیے۔ ریلوے کو اگر پراؤیٹ ادارے چلائیں اور بیوروکریسی آپریشنل معاملات میں ٹانگ نہ اڑائے تو یہ پاکستان میں ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری بن سکتی ہے اور کم از کم بیس لاکھ لوگوں کو دس سال کے اندر اندر بلا واسطہ یا باالواسطہ ملازمتیں مل سکتی ہیں۔اسٹیل مل انہی وجوہات کی بنا پر قرض تلے دب کر بند ہو گئی۔ اب اس ادارے کو اتنا زیادہ مقروض ہونے کی وجہ سے کوئی مفت میں بھی لینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان کو ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے جن کی ساکھ اندرون و بیرون ملک اچھی ہو۔ رنگیلا شاہی ھکمرانی کی صدیاں بیت گئیں مگر پاکستان میں وہ دور ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔کرپشن ختم کئے بغیر نہ تو ملک کی حالت سدھر سکتی ہے نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار صدر انڈیپینڈینٹ اکنامسٹس اینڈ پالیسی پریکٹیشنرز ڈداکٹر شاہدہ وزارت اور پی ڈی پی کے جنرل سیکریٹری اقبال ہاشمی نے پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے زیر اہتمام ملکی اداروں کو غیر شفاف طریقے سے فروخت کرنے کے خلاف کراچی پریس کلب پرہونے وا لی علامتی بھوک ہڑتال کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بھوک ہڑتال کے شرکاء اور صحافیوں سے پاسبان کے وائس چیئرمین عبدالحاکم قائد، کراچی کے چیف آرگنائزر طارق چاندی والا، سینیئر رہنما سردار ذوالفقار، کلیم اللہ ملک، میاں ریاض سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہدہ وزارت اور اقبال ہاشمی نے اپنے پیغام میں کہا کہ سیاستدانوں کی خودغرضیوں کی وجہ سے ملک آج اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ حکومت ان اداروں کو اونے پونے فروخت کرنا چاہتی ہے اور پاکستان کی شہرت دنیا میں ایسی ہو چکی ہے کہ کوئی ادارہ انہیں خریدنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کراچی الیکٹرک بیس سال پہلے چھ ارب روپے میں بکا تھا، آج اس کی مالیت تین سو ارب روپے ہے۔
اسٹیل ملز انہی وجوہات کی بناء پر قرض تلے دب کر بند ہوگئی۔ اب اس ادارے کو اتنا زیادہ مقروض ہونے کی وجہ سے کوئی مفت میں بھی لینے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستانی حکومتیں قرضوں کی پائیداری کا مطالعہ کیے بغیر بجٹ سپورٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہیں۔ پاکستان کے قرضے 2019 سے غیر پائیدار ہو چکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ملک مستقبل میں ان قرضوں کو پورا نہیں کر سکے گا اور اس کے نتیجے میں ڈیفالٹ ہو جائے گا۔ کسی بھی پاکستانی حکومت نے غیر ضروری اور فضول اخراجات کو کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وفاقی حکومت کابینہ 62 ارکان پر مشتمل ہے جو رائلٹی کی طرح رہتے ہیں۔ غیر ملکی دوروں پر بڑے بڑے وفود لے جاتے ہیں۔ پرتعیش اشیاء کی درآمد میں کمی نہیں کی ہے۔ پاکستانی عوام بارش کا پانی گھروں میں بھر جانے کی وجہ سے سو نہیں پاتے۔ یہ غریب لوگ ہی ہیں جو اپنے لیے مناسب خوراک، رہائش، صحت اور تعلیم کی سہولیات نہیں دے سکتے جنہیں اس رائلٹی کو برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ ایس بی پی کو خود مختار بنانے کی آئی ایم ایف کی شرط نے حکومت پاکستان (جی او پی) کو نہ صرف اسٹیٹ بینک بلکہ آئی ایم ایف اور امریکی حکومت کو بھی آئی ایم ایف کے ماتحت کر دیا ہے۔ پاکستانی حکومتیں بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اسٹریٹجک منافع بخش سرمایہ کی فروخت کے ذریعے وسائل پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
شہباز شریف کابینہ نے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر پاکستان کے سٹریٹجک اثاثوں کی نجکاری کی منظوری دے دی ہے جس سے پاکستان کے سٹریٹجک اور منافع بخش اثاثوں کو غیر ملکیوں کے لیے لوٹنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ کیا ایسی حکومتیں ملک کو موجودہ حالات سے نکال سکتی ہیں؟ کیا ان میں پاکستان کے معاشی، آئینی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کو حل کرنے کی قوت ارادی اور صلاحیت ہے جو اب ریاست پاکستان کو دوچار کر رہے ہیں؟ سابقہ اورموجودہ حکمران پاکستان کو معاشی تباہی، ڈیفالٹ، جوہری ہتھیاروں سے محرومی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان کو بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایک ایسی قومی حکومت قائم کی جائے جو قابل ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ہو۔ جن کی وفاداریاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے وابستہ نہ ہوں اور جو غیر ملکی حکومتوں کے پے رول پر نہ ہوں۔ ان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات نہ ہوں۔ ایسی حکومت ہی ہمیں موجودہ معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانوں سے نکال سکے گی۔