ماں کی گود بچےّ کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ ماں کی مذہب سے لگن، عادات واطوار، رہن سہن، تہذیب وثقافت کا رنگ اولاد میں نظر آتا ہے۔
ماں کا دودھ 6 ماہ کی عمر تک بچے کے لیے انتہائی مفید ہے زیادہ سے زیادہ دو سال تک بھی پلا سکتے ہیں ۔ لیکن آج کل پیدا ہوتے ہی انہیں اس حق سے محروم کر دیا جاتا ہے یہ کہہ کر کے میری صحت متاثر ہو گی جبکہ بچے کو دودھ پلانا بچے کی صحت کے ساتھ ساتھ ماں کے لیے بہت مفید ہے۔ کیونکہ اس سے خواتین میں بریسٹ کینسر کے چانس کم ہوتے ہیں اور ماں اور بچے کا تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔
اگر ماں نے گھر میں دینی ماحول قائم کیا ہے تو بچےّ کی روحانیت پر بہت اثر پڑتا ہے۔ ماں اگر مذہبی ہے گھر میں نماز کا اہتمام، قرآن کی تلاوت، چھوٹی چھوٹی آیات کو روزمرہ کاموں کے ساتھ پڑھنے کی عادی ہے تو اولاد ضرور اُس پر عمل کریں گی۔ بجائے اِس کے کہ اُسے کہا جائے بیٹا نماز پڑھ لو قرآن پڑھ لو تو بچہ کبھی اُسے نہیں اپنائے گا ۔ جب تک اُسے عملاً کر کے نہ دیکھایا جائے ۔بچےّ جو دیکھتے ہیں اُسے زیادہ فالو کرتے ہیں مگر آج کل کی ماں پیدا ہوتے بچےّ کو موبائل پر انگلش نظمیں، کارٹون، گانے اور گیمز کی عادت ڈالتی ہیں۔ بچہّ رویا فورًا موبائل بچےّ کو دے دیا اس سےبچہّ بچپن سے ہی اُس کا عادی ہو گیا۔ موبائل سے نکلنے والی ریز نے اُس کے دماغ، آنکھوں اور قوتِ سماعت کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے دین سےدور والدین سے دور گھر والوں سے دور کر دیا۔ حالانکہ یہی وقت اس کی زندگی کا سنہری دور تھا جب اُس میں سیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ تھی جب اس نے ذہنی اور جسمانی طور پر پروان چڑھنا تھا۔
ایک پڑھی لکھی ماں ایک پڑھے لکھے گھرانے کی ضمانت ہوتی ہے۔ وہ خود باعلم با شعور ہوتی ہے وہ اپنے بچے کی تعلیم وتربیت احسن طریقے سے کر سکتی ہے۔ لیکن آج کل کی ماں اپنے اُوپر سے یہ ذمہ داری اُتار کر سکول پر ڈال دیتی ہے۔ تین سال کی عمر میں بچوں کا معصوم بچپن سکول کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جہاں ان پر ان کی عُمراور وزن سے زیادہ آکسفورڈ نصاب مسلط کر دیا جاتا ہے۔ پھر ان کی بہتر تعلیم و تربیت کے لیے سکول کے ساتھ ٹیوشن بھیج دیا جاتا ہے۔
پڑھی لکھی ماں اگر ملازمت بھی کرتی ہے تو وہ اپنے بچے کو ٹائم نہیں دے پاتی۔پہلے ماں بچےکولوریاں سُنا کر سُلایا کرتی تھی صبح ناشتے کے بعد ماں اپنی ملازمت پر اور بچے کو ملازمہ ، گھر کے بزرگوں یا پھر سکول آکیڈمیز کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ تو ماں اور بچے کے درمیان جو تعلق استوار ہونا چاہیے تھا وہ کبھی قائم ہی نہیں ہوتا۔ بچہ اس دوران جو شخص اس سے زیادہ رابطے میں رہتا ہے اس کے قریب ہوتا ہے اس کا خیال رکھتا ہے وہ اُسے اپنی ماں اور ہمدرد خیال کرنے لگتا ہے۔ جس اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے آپ اتنی تگ و دو کر رہے ہیں وہی آپ کی اپنی اولاد آپ سے دور ہو جاتی ہے۔
ماں تھکی جب گھر آتی ہے تو گھر کے امور میں مصروف ہو جاتی تو بچہ کچھ کہتا ہے تو ماں ڈانٹتی ہے آنکھیں دکھاتی ہے اور زیادہ غصہ آئے تو ہاتھ بھی اُٹھا دیتی ہے بچپن سے ہی آپ اپنے بچے کو غصہ کرنا سکھا رہے ہیں وہ بھی اپنا غصہ اپنے سے چھوٹےیا کمزور انسان پر اُتارے گا ۔ کل کو وہ بچہ بھی اپنی اولاد کے ساتھ یہی کرے گا۔ اس طرح وہ آپ سے دور ہو جائے گا اُس کی معصومیت خواہشات کہی دب کر رہ جائے گی۔ وہ اپنی مصروفیات سوشل میڈیا کو بنا لے گا جو کہ آپ کے بچے کی ساکھ بگاڑ کر رکھ دے گا ۔ آپ اُسے اعتماد کی فضا نہیں دے گے تو وہ غیروں پر بھروسہ کر کے خود کو کسی سنگین خطرے میں ڈال دے گا۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ بچپن میں ہی آپ نے اپنے بچے کو خود سے دور کر کے غصہ، ڈپریشن اور تنہائی کا عادی بنا دیا ہے؟؟؟؟
ماں سے درخواست ہے کہ اپنے بچے کو خود پالیں ۔اُس کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ اُسے وقت دیں۔ اُس کے پاس بیٹھے ایک دوستانہ ماحول دیں۔ تا کہ وہ آپ سے اپنے دل کی بات اپنی خواہشات اپنےخوف کہہ سکے۔ اس کے شوق اور جستجو کے مطابق بات کریں۔ اس کی معلومات سُنیں۔اس پر اعتبار کریں۔ اور اُسے احساس دلائے کہ آپ کی شخصیت بھی دوسروں کی طرح قابلِ احترام ہے تو بچہ آپ کو بھی عزت و احترام دے گا۔