طلبہ یونینز پر پابندی،، حقائق نظر انداز نہ کریں۔۔
تحریر: محمد جواد بھوجیہ
سال 1984ء میں جنرل ضیا الحق نے ملک بھر میں یونیورسٹیز اور کالج کیمپس میں طالب علموں کی سیاست پر پابندی کا اعلان کیا، یہ اقدام بظاہر تشدد اور بڑھتی ہوئی جھڑپوں کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا کیونکہ جامعات اور کالجز میں ایک نظریاتی تقسیم جو بائیں اور دائیں نظریات سے تعلق رکھنے والے طلبہ میں موجود تھی جس کی وجہ سے طالب علموں کے درمیان جھڑپوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور خاص طور پر کراچی میں لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے تعلیمی ادارے تقریبا مفلوج ہوچکے تھے۔ اس وقت سندھ کی تمام قیادت نے اس اقدام کی حمایت کی تھی خاص طور پر وفاقی کابینہ کے وزراء نے اقدامات کو باقاعدہ سراہا ان میں سے بہت لوگ اب جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا حصہ ہیں۔ اس وقت کراچی میں خون کی باقاعدہ ہولی کھیلی جارہی تھی اور لسان کے نام پر ایک طلبہ تنظیم ریاست کے لیے دردسر بنی ہوئی تھی اور اسی طلبہ تنظیم کی باقیات کے خلاف آج بھی کسی نہ کسی طرح آپریشن جاری ہے۔ یہ طلبہ تنظیم ،، آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن،، تھی جو بعد میں ایم کیو ایم میں تبدیل ہوگئی۔ آل پاکستان مہاجرسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جمعرات 11 جون 1978 کو کراچی یونیورسٹی میں قائم کی گئی۔ یہ طلبہ تنظیم الطاف حسین نے قائم کی اور وہ خود اس کے پہلے سربراہ تھے اور ان کے معاون عظیم احمد طارق اس طلبہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری بنے، اس طلبہ تنظیم کا ایک ہی نعرہ تھا کہ تمام تر وسائل پر پنجاب کے لوگ قابض ہیں یہاں تک کہ ایک جلسہ میں الطاف حسین نے جب فضا میں پی آئی اے کا جہاز دیکھا تو یہ تک کہ دیا کہ وہ دیکھیں سرکاری جہاز پر بھی پنجاب قابض ہے، اور کہا کہ پنجاب انٹرنیشنل ایئرلائن،، اور حاضرین جلسہ نے پنجابیوں پر خوب بھڑاس نکالی۔ اس طلبہ تنظیم نے ابتدائی طور پر کراچی یونیورسٹی میں اپنی دہشت دکھائی مخالف طلبہ تنظیم کے طلبہ کواغوا کیا گیا اور ان کی لاشیں دو روز بعد اسی یونیورسٹی کے کیفے کے پاس پھینک دی گئیں جہاں سے ان طلبہ کو اغوا کیا گیا تھا۔ طلبہ کی لاشوں کی اس طرح بے حرمتی کی گئی کہ کئی اعضا بھی کاٹ دیے گئے۔ اس کے بعد یہ طلبہ تنظیم کراچی اور حیدر آباد کے دیگر تعلیمی اداروں میں دہشت کی علامت بن گئی۔
بات یہاں تک نہ رکی طلبہ تنظیم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں تک کو نہ بخشا۔ پولیس کے افسران اور جوانوں کی لاشیں اسی طلبہ تنظیم نے گرائیں یہاں تک کہ پولیس کے لوگ وردی بغیر تھانے جاتے تھانے کی چاردیواری تک وردی محدود تھی۔ تھانوں کے ایس ایچ اووز اپنے افسران کی بجائے اس طلبہ تنظیم کے لیڈرز کو جواب دہ تھے۔ چن چن کر اس طلبہ تنظیم نے غیر مہاجر افراد کا قتل عام کیا۔ اس طلبہ تنظیم کا ایک ہی نعرہ تھا کہ غیر مہاجر خاص طور پر پنجابی پاکستان کے وسائل پر قابض ہیں، ان تمام مسائل کا حل یہی ہے کہ طاقت کے زور پر اب وسائل واپس حاصل کرلیں اور اس کے کے لیے آخری حد تک جائیں، جو ان کے راستے میں رکاوٹ آئے اسے ختم کردیا جائے۔ یہ تمام واقعات ریاست کے لیے ناقابل قبول تھے۔ ریاست نے آخری حل کے طور پر طلبہ تنظیموں پر مکمل طور پر پابندی لگادی اور یہی طلبہ تنظیم اس پابندی کے بعد ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہوگئی۔ جنرل ضیاالحق کے اس فیصلہ پر اس وقت کسی نے تنقید نہ کی تھی ملک بھر کے طول و عرض میں اس فیصلہ کو سراہا گیا تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے فیصلہ کو سراہا۔ اس فیصلہ کے بعد ایک طلبہ تنظیم نے کسی نہ کسی طرح اپنا وجود قائم رکھا وہ اسلامی جمعیت طلبہ تھی۔ آل پاکستان مہاجرسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے جن طلبہ کاقتل عام کیا ان میں سے اکثریت اسلامی جمعیت طلبہ سے ہی تعلق رکھتی تھی۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس طلبہ تنظیم کے نظم نے اس کو ذندہ رکھا۔ اور آج بھی اگر تعلیمی اداروں میں پوری آب و تاب کیساتھ یہ طلبہ تنظیم موجود ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس تنظیم کا نظم ہے۔
پنجاب کے ہر سرکاری کالج میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن موجود ہے تاہم ان طلبہ تنظیموں پر غنڈوں کا قبضہ ہے۔ نظم نام کی کوئی چیز نہیں۔ طلبہ پر تشدد میں یہ تنظیمیں اب بھی ملوث ہیں یہ میری ذاتی رائے نہیں ہے یہ تمام حقائق ہیں وہیں ان طلبہ تنظیموں کا دوسرا کام ٹرانسپورٹرز کی چھترول ہے اور بعض دفعہ پنجاب میں خاص طور پر سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال ہوتے رہے۔ اب ان طلبہ تنظیموں میں ایک نئی سکیم داخل ہوئی ہے یہ سکیم کونسلز کے نام پر جامعات پر قابض ہونے کی ایک کوشش ہے۔ ملک کی صف اول کی یونیورسٹی قائداعظم یونیورسٹی میں یہ طلبہ کونسلز عملی طور پر انتظامی معاملات پر مکمل قابض ہے انتظامیہ ان طلبہ کونسلز کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہے۔ دستیاب دستاویزات کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی گذشتہ سال ان طلبہ کونسلز کے جھگڑوں کی وجہ سے 70 روز بند رہی۔ اسی طرح انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں بھی طلبہ کونسلز پوری آب و تاب کیساتھ موجود ہیں ۔پنجاب بھر کی جامعات میں یہ کونسلز برادریوں کی سطح پر موجود ہیں ،جس کی وجہ سے تمام تر جامعات میں نقص امن کے مسائل ہر آئے روز سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح پشاور یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے غیر قانونی طور پر ہاسٹلز میں مقیم طلبہ کو یونیورسٹی سے نکالنے کے لیے باقاعدہ آپریشن کرنا پڑا ۔اب اس صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو کیا طلبہ یونین پر غیر فعال پابندی اٹھانے کے کیا نتائج ہوگے اس کا جواب بہت حد تک واضح ہے۔ میرے خیال میں طلبہ پر کسی بھی قسم کی ایسی سرگرمیوں پر سخت ترین پابندی ہونی چاہیے تاکہ یونیورسٹیز کے ماحول کو مزید خراب ہونے سے بچایا جائے۔ اس تناظر میں بہت سارے بیانیے سامنے آرہے ہیں تاہم اس بیانئے کے حق میں کوئی ٹھوس دلائل سامنے نہیں آرہے، ہر کوئی طلبہ یونینز پر غیر فعال پابندی اٹھانے کا مطالبہ تو کررہا ہے تاہم وہ تمام لوگ ذمینی حالات سے یکسر لاعلم ہیں۔
بابائے قوم نے فرمایا تھا لسانیت ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ،ہم صرف پاکستانی ہیں نہ کہ پٹھان ،بلوچ ،سندھی اور پنجابی ۔میری رائے ہے طلبہ کا تمام تر دھیان پڑھائی کی طرف لانے کے اقدامات کئے جائیں ہماری جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ پہلے ہی پروفیشنل لائف میں دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہیں،، کچھ عرصہ قبل جب وزیر اعظم پاکستان نے چینی حکام سے اس معاملہ پر بات کی کہ آپ ہمارے پروفیشنلز کو سی پیک کے پراجیکٹس میں زیادہ تعداد میں کیوں شامل نہیں کررہے تو چینی سفیر نے وزیر اعظم کو بتایا کہ تمام پروفیشنلز یہاں سے ہی لیے گئے تھے تاہم کام کے متعلق پریکٹیکل نالج نہ ہونے کی وجہ سے ان کو فارغ کیا گیا ہے ۔جامعات میں تعلیم اور خاص طور پر پریکٹیکل نالج پر کوئی توجہ نہیں ہے ۔ہمیں دنیا کیساتھ چلنا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کرنا ہے یہ صرف بہترین تعلیم سے ہی ممکن ہے اور اگر آپ تعلیمی ادارے بھی سیاست دانوں کے حوالے کردیں گے تو معیار تعلیم کا کیا حال ہوگا اس کا جواب ڈھونڈنا مشکل نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ کی انرجی کو مثبت سمت میں استعمال کے لیے جائے جامعات میں کھیلوں کو فروغ دیا جائے ہمارے جامعات میں کھیل سال میں ایک ہفتہ تک محدود ہے، طلبہ کے لیے کھیل کے میدان روزانہ کی بنیاد پر سمجھنے چاہیے۔ دنیا بھر کے ممالک میں کھیلوں میں جامعات کے طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے تاہم ہمارے ہاں یہ شرح دس فیصد سے بھی کم ہے۔
نوٹ: آزادیِ اظہار رائے کے احترام میں کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔