کراچی، (رپورٹ، ذیشان حسین) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے 21روزہ ”عوامی تھیٹر فیسٹیول“ کامیابی سے جاری ہے، عوامی تھیٹر فیسٹیول کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ لوگوں نے کھڑے ہوکر ڈرامہ دیکھا، ہفتہ اور اتوار کے روز دو دو شو پیش کیے گئے، فیسٹیول کے 16 ویں روز آفتاب کامدار کا پہلا شو ”دھڑیں جا دھڑاکا“ میمنی زبان اور رﺅف لالہ کا دوسرا شو ”بیوی، بٹوہ اور بٹوارہ“ اردو زبان میں پیش کیاگیا، ”دھڑیں جا دھڑاکا“ میں سلومی، نذر حسین، شہباز صنم، رﺅف لالہ، سپنا غزل،عبداللہ لالہ، شہنیلاقریشی ،رو ¿ف عالم، ناصرہ نور،حسین راٹھور ،طلحہ بھوجانی، عامر ہوکلا، جنید میمن، زیڈ اے مٹھو، شاہدہ مرتضیٰ نے بہترین اداکاری کے جوہر دکھائے، ڈرامے میں حقیقت پر مبنی ایک چھوٹے سے گھر کی کہانی کو عوام کے سامنے پیش کیاگیا کہ آج کے دور میں ساس کا بہو کے ساتھ کا کیا رویہ ہے مگر جب بہو خود ساس بنتی ہے تو ان کی بہو کا اس کے ساتھ کیا رویہ ہوتا ہے ، یہ دنیا مکافات عمل ہے آپ جو بو گے وہی کاٹو گے، جب نئی بہو گھر میں آتی ہے تو وہ کیا رویہ اختیار کرتی ہے لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ فیملی ہمیشہ مل جل کرہنسی خوشی رہے ، ڈرامے میں دکھایا گیا کہ بڑوں کی عزت کیسے کرنی ہے ، ہمارے بڑے گھر کا شجر ہوتے ہیں جس گھر میں بزرگوں کی عزت کی جاتی ہے اس گھر میں برکتیں نازل ہوتی ہیں ، ڈرامے میں دکھایا گیا کہ رشتہ چاہے کوئی بھی ہو مگر ہر عمل کا مکافاتِ عمل ضرور ہوتا ہے، ہمیں بڑوں کی عزت اور احترام کرنا چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ہماری عزت کرسکیں،دوسرے شو”بیوی، بٹوہ اور بٹوارہ “ میں عوام کا بے انتہا رش کے باعث لوگوں نے کھڑے ہوکر ڈرامہ دیکھا، ڈرامے کے رائٹر و ڈائریکٹر رﺅف لالہ تھے، کاسٹ میں رﺅف لالہ، شانزے، ولی شیخ، سپنا قریشی، عامر ریمبو، ارم، عبداللہ لالہ، زوہیب عامراور شہزاد شامل تھے، ڈرامہ ایک متوسط طبقے کی کہانی ہے جس میں میاں ، بیوی، بیٹااور ان کا سالا اور دولہا بھائی کا سالا اس گھر میں رہتے ہیں، ذرا سی بات پر جھگڑا ہوتا ہے اور گھر کے دو حصے ہوجاتے ہیں، اس کے بعد اس گھر کو بنانے والا کوئی نہیں ہوتا ، اسی دوران سندھ سے دو میاں بیوی اپنے بچوں کے ساتھ کراچی گھومنے کے لیے آتے ہیں جو ان کے مہمان ہوتے ہیں، گھر میں جھگڑے کی وجہ سے ایک پارٹی بیوی کو لے جاتی ہے ایک میاں کو۔اس طرح یہ لوگ اپنے گھر کے ساتھ ساتھ آنے والے مہمانوں کا گھر بھی خراب کرتے ہیں، پھر ماموں جیسے تیسے کچھ کر کے ان مہمانوں کو یہاں سے نکالتا ہے، ساتھ ہی اپنی بہن اور بہنوئی کا گھر بچانے کے لیے بھی ان کی صلح کرادیتا ہے کیونکہ میاں بیوی عمر کے جس آخری حصے میں ہوتے ہیں انہیں ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، ناں کہ لڑائی جھگڑا کرکے علیحدگی یا طلاق کی نوبت آئے اس طرح بھائی(ماموں) صلح کرانے میں کامیاب ہوجاتا ہے، ڈرامے میں دکھایا گیا کہ لڑائی جھگڑے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ہمیں مل کر رہنا چاہیے اور جو رشتے ہیں ان کی قدر کرنا چاہیے تاکہ اچھی زندگی بسر ہوسکے۔فیسٹیول کے 17ویں روز علی روشن کا سندھی ڈرامہ ”نافرمان“ اور نذر حسین کا ”میثاقِ محبت“ پیش کیاگیا۔ ڈرامہ فرمان کی کاسٹ میں لاریب سجن، عاشق علی ، احمد پٹھان، شفت علی شاہ ، کشور جبین اور محبوب گل نورانی شامل تھے ، ڈرامہ ایک نافرمان بیٹے کی کہانی تھی ،جو بے روزگار ہوتا ہے اور اپنے ریٹائرڈ باپ کی جائیداد کو بیچنا چاہتا ہے ، لیکن باپ منع کر دیتا ہے جس کے بعد نافرمان بیٹے کی بیوی اپنے سسر کو مارنے کا کہتی ہے مگر بیٹا منع کر دیتا ہے ،آخر میں بہو ایک آشنا کے ذریعے اپنے سسر کو مروادیتی ہے، دوسرے شو ”میثاق محبت “ کے مصنف و ہدایتکار محمد نذر حسین تھے جبکہ کاسٹ میں شہزادرضا، نذر حسین، شانزے ، ارما احمد ، ناصرہ نور، ارم، عبداللہ لالہ، الیاس ندیم اور اشرف چراغ شامل تھے، یہ کھیل گھریلو رشتوں کے مزاح کی کہانی پر مبنی تھا ، ایک شخص جس نے زندگی بھر خاندان کی ساری ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھی، ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچوں کی ہر خوشی پوری کرنے کیلئے اپنی صحت تک برباد کرلی، جب وہ شخص ریٹائر ہو جاتا ہے تب وہ تنہائی میں رہنے لگتا ہے ، جس میں وہ اپنی یادوں اپنے دکھوں پر ہنستا ہے ، ان کا مذاق اڑاتا ہے، مگر وہ مسکراتا رہتا ہے اور اس کے سارے رشتے دار اپنی زندگی اپنی خوشیوں میں ایسے مست ہوجاتے ہیں کہ خاندان کے اس چراغ کو بھول جاتے ہیں جس نے خود کو جلاکر ان کا مستقبل روشن کیا ، رشتوں کے درمیان جو خلیج جو فاصلے پیدا ہوجاتے ہیں ان کو مزید حسن سلوک اور پیار سے ختم کرکے سب کو یکجا کر کے ایک دوسرے کے ساتھ "میثاق محبت” کا معاہدہ کرالیتا ہے اور محبت جیت جاتی ہے، ڈرامہ دیکھنے کے لیے شائقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور فنکاروں کی پرفارمنس کو خوب سراہا۔