تازہ ترین
Home / Home / الفاظ کہانیاں ہیں ۔۔۔ تحریر : ارم غلام نبی

الفاظ کہانیاں ہیں ۔۔۔ تحریر : ارم غلام نبی

الفاظ کہانیاں ہیں۔ جن کا نتیجہ انسان اپنی مرضی کے مطابق سے نکالتا ہے۔
الفاظ اپنے اندر بہت گہرائی رکھتے ہیں۔ کبھی بھی پڑھنے والا قاری ، لکھنے والے کی کیفیت کو نہیں پا سکتا۔
ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں۔جن کا انحصار انسان کی سوچ اور سمجھ بوجھ پر ہوتا ہے۔
صدیوں پہلے جب ایک ہی چیز کو مختلف علاقوں اور ملکوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا تو یہ بات اُس وقت کے ماہرِ علم یقینی سائنسدانوں کے لیے پریشان کن تھی۔ مثلاً ایک جگہ پر پیاز کو گنڈا کہہ کر پکارا جاتا تو دوسری جگہ onion کہا جاتا تھا۔اسی طرح مختلف علاقوں میں اس کے اور بھی مختلف نام رائج تھے۔
عجیب بات ہے نا ؟
ایک چیز کے اتنے نام۔
اب جس کو یہ پتا ہے کہ اسے پیاز کہا جاتا ہے۔اگر وہ دوسرے علاقے میں جاکر پیاز پکار پکار کر چیخیں بھی مارتا رہے تو وہاں کے لوگوں کو نہیں پتا چلے گا کہ وہ بے چارہ کون سی چیز مانگ رہا ہے۔ تو پھر اس برابلم کے حل کے لیے اسے ایک ہی سائنٹفک نام Allium cepa دے دیا گیا تاکہ کسی کو مشکل پیش نہ آئے۔
اسی طرح مختلف الفاظ کے مختلف معنی بھی تو ہوتے ہیں۔ جس طرح پڑھنے والا لکھنے والے کی کیفیت کو نہیں جان سکتا بلکل اسی طرح لکھنے والا بھی تو پڑھنے والے کی سمجھ بوجھ کو نہیں جان سکتا۔
میں نے کہا نا۔۔۔۔۔الفاظ کہانیاں ہیں۔ ہر کہانی کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو ہوتا ہے۔ اور نتیجہ نکالنے کے لیے لفظوں کے معانی معلوم ہونا ضروری ہیں جس بنیاد پر نتیجہ نکلتا ہے۔ جیسا کہ ایک لفظ کے ایک سے زائد معانی ہوتے ہیں تو ہر انسان اپنی اپنی ڈکشنری کے مطابق اس کے مختلف نتائج نکالے گا۔
اب مجھے بتائیے؟ کیا کبھی دو انسانوں کی ایک جیسی سوچ ہو سکتی ہے؟
یقیناً نہیں۔
"ہو سکتا ہے کہ ایک انسان پوزیٹو سنس میں بات کرے تو دوسرا اس کو نیگیٹو سنس میں لے کر ختمی نتیجہ نکال کر بیٹھ جائے۔”(آگے دلایل سے ثابت کروں گی)
اور اسی طرح کچھ الفاظ بدنامِ زمانہ بھی ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ انسانوں نے ان کے معانی بگاڑے ہوتے ہیں۔
مثال دے کر بتاتی ہوں۔
جیسے کہ ایک لفظ "قاتل” ہے ۔یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی ملتا ہے۔
اس کے لیے عربی میں لفظ ” قَتَلہ ” استعمال ہوا ہے جو کہ ایک فعل ہے۔ جس کا معانی ہے ” خون کرنے والا”۔
جیسے انگلش میں murdererکہتے ہیں۔
اس کی تعریف ہے ” وہ انسان جو کسی دوسرے انسان کا خون کر دے ” مطلب سمجھ گئے نا؟
مثال کے طور پر اگر ایک انسان قتل کیس discuss کرنے کو کہے۔
اور دوسرا انسان جواب میں یہ کہہ دے "کیا میں آپ کو قاتل لگتا ہوں” جو قتل کیس discuss کروں۔ تو اس کا پوزیٹو پہلو یہ ہے کہ وہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ وہ انسانوں کا خون کرنے والا انسان نہیں جو اس ٹوپک پر discussion کریں۔ یہ اس لفظ کے پوزیٹو معانی تھے۔
اور
مجھے یقین ہے کہ اس کے نیگیٹو معانی آپ لوگ اچھے سے جانتے ہوں گے۔۔۔۔۔ہاں ہاں! اگر میری طرح نہیں پتا تو گوگل اوپن کر کے دیکھ لیں اور پھر میری طرح خدا کی پناہ مانگ لیجئے گا اور بیٹھ کر لوگوں کی سوچ پر افسوس کیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا
(خدا جانے یہ لوگ کیا کیا سمجھ لیتے ہیں ، بھئی کچھ لوگ واقعی معصوم ہوتے ہیں جنہیں زمانے کی فضول باتوں کی واقعی سمجھ نہیں آتی)
اسی لیے تو بتا رہی ہوں۔
الفاظ واقعی کہانیاں ہیں جس کا نتیجہ ہم اپنی سوچ کے مطابق نکالتے ہیں اور سوچ کا انحصار ہماری ڈکشنری پر ہوتا ہےجو کہ حالات و واقعات اور تجربات کی بنیاد پر ایک لفظ کے کئی معانیوں سے بھری ہوتی ہے۔
اسی لیے میں اکثر لکھتی ہوں کہ مطلب پوچھ لیا کریں۔ جملے اکثر دو معانی رکھتے ہیں۔ ایک کہنے والے کے مطابق اور دوسرا سننے والے کی سوچ کے مطابق۔
میری اکثر عادت ہے کہ میں ہر چیز کا مطلب پوچھتی ہوں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ میرے اندر اتنی بھی کومن سنس نہیں ، جو کہ میں چیزوں کو سمجھ نہ سکوں۔
بتاتی چلوں کہ میں مطلب جان بوجھ کر پوچھتی ہوں۔ پتا ہے کیوں؟
کیونکہ میں جب بھی کوئی نئی بات سنتی ہوں تو پہلے اسے سمجھتی ہوں۔ اس کو اچھے سے analyze کرتی ہوں۔ پھر ایک نتیجہ نکالتی ہوں۔ نتیجہ نکالنے کے بعد میں دوسرے انسان سے اس کا دوبارہ مطلب پوچھتی ہوں تا کہ دونوں نتائج کو میچ کر سکوں۔
اگر دونوں نتائج میچ کریں تو ٹھیک۔ ورنہ دوسرے انسان کے بتائے گئے مطلب کے مطابق بات مان لیتی ہوں۔
بھئی ہر انسان اپنی اپنی سوچ رکھتا ہے۔یہ دوسرے کا حق بھی ہے کہ وہ اپنا پوائنٹ کلئیر کرے۔اپنی سوچ کے مطابق نتیجہ نکال کر بیٹھ جانا بے وقوفانہ عمل ہےاور اس طرح ہم خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی گناہ گار بن سکتے ہیں
آپ لوگوں نے سنا نہیں۔

"کچھ گمان بھی گناہ ہوتے ہیں۔”

ہم بات کا غلط مطلب نکال کر گناہ کے ساتھ ساتھ دوسرے انسان کو بھی ایک ایسے گلٹ کا شکار بنا سکتے ہیں جس کا وہ حق دار ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ہم اس طرح کسی کے تقویٰ اور پرہیز گاری کو بھی ٹھیس پہنچا سکتے ہیں۔
” اللہ پاک دلوں کا حال جانتے ہیں ، ہم انسانوں کو کیا پتا کہ دوسروں کے دلوں میں کیا ہے۔”
اب دیکھے ایک انسان پوزیٹو طریقے سے اپنی بات کر رہا ہے اور دوسرا انسان اس کا غلط مطلب نکال لے تو یہ اس کے ساتھ نا انصافی نہیں۔۔۔۔؟
اور پھر ایک جگہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "تم خوب تحقیق کر لو۔”
اب مجھے بتائیں کہ ہم لوگ کون ہیں۔۔۔؟ جو دوسروں کو اس کا پوائنٹ کلئیر کرنے کا حق بھی نہ دیں اور پہلے ہی مجرم ٹھہرا دیں۔اسی لیے کہتی ہوں کہ مطلب پوچھ لیا کریں۔
اور جانتے ہو۔۔۔۔؟
یہ مطلب پوچھنا بھی ایک آرٹ ہے جوکہ intellectual people کی نشانی ہے۔
اور یہ آرٹ سیکھنے کے لیے آپ کو اپنےاندر بک ریڈنگ سکل پیدا کرنی ہو گی۔
اب آپ کہے گے۔ کیا فائدہ؟ ہمیں تو ویسے ہی مطلب سمجھ آ جاتے ہیں۔ ارے نہیں ، یہی تو سمجھانا چاہ رہی ہوں کہ ایک لفظ کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔ آپ نے صرف وہ الفاظ سیکھے ہیں جو آپ کی صحبتوں کی مہربانی ہیں یا معاشرے کی نیگیٹو سوچ کے ایجاد کردا۔
ہو سکتا ہے جو الفاظ آپ کی ڈکشنری میں پوزیٹو ہیں ، وہ دوسرے انسان کی ڈکشنری میں نیگیٹو معانی رکھتے ہوں۔ پھر ایسے ہی تو انسانوں کے اندر بد گمانیاں جنم لیتی ہیں۔
الفاظ کہانیاں ہیں اور انسان کی سوچ اس کے نتائج کا احاطہ کرتی ہے۔
صحبتیں بدلیں یا علم بڑھائے مگر الفاظ کو غلط رنگ مت دیں۔
جزاک اللہ!
اللہ پاک ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین !

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

کمالیہ 9 مئی 2025 کی خبریں۔ ایڈیٹر نیوز آف پاکستان۔ ڈاکٹر غلام مرتضیٰ سے

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے