ہر خطے کی اپنی ثقافت، رسم و رواج اور روایئت ہوتی ہے ۔ بظاہر ایک دوسرے سے جدا مگر محبتوں اور اپنائیت کی چاشنی میں گندھی ہوئی۔ ہم آج جس خطے کا ذکر کر رہے ہیں وہ ہے پاک سر زمین کے صوبے پنجاب کی دھرتی کا۔ پنجاب کے دیہی علاقوں کی کچھ روایات ایسی ہیں جو نسل در نسل ابھی تک قائم ہیں۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے اژدھے نے ابھی تک ان روایات کو نہیں ڈسا۔ ہم جس کی روائیت کی بات کر رہے ہیں وہ ہے پنجاب کے دیہاتوں میں دیہی برادری کو شادی کی دعوت دینا۔ شادی کے دعوت ناموں میں بظاہر تو کوئی ایسی روائیت دکھائی نہیں دے رہی کہ جس تذکرہ ضروری سمجھا جائے ۔ لیکن ٹھہرئیے ! ہم آپ کو ابھی اس روائیت سے روشناس کرواتے ہیں جو ابھی تک دیہات میں قائم و دائم ہے۔ پنجاب کے دیہاتوں میں عزیز و اقارب، برادری اور دوست احباب و شادی کی دعوت کے لئے کارڈ قاصد کے ہاتھ بھجوائے جاتے ہیں اور قاصد شادی کارڈ پر لکھے ناموں کے حساب سے عزیزو اقارب، برادری اور دوست احباب کے گھروں میں کارڈ بانٹتا ہے اور پھر شادی کا دعوت نامہ ملنے کی خوشی میں حسب توفیق کچھ رقم قاصد کو دی جاتی ہے۔ شادی کارڈ اگر دوسرے گاؤں میں بجھوائے جائیں تو پھر رقم کے ساتھ ساتھ قاصد کی لسی اور چائے سے خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ بطور قاصد کارڈ بانٹنے والا شخص کوئی ذاتی ملازم نہیں بلکہ گاؤں کا نائی ہوتا ہے۔ قاصد اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ اسے جس گھر سے بھی جتنی رقم ملے وہ شادی والے گھر کے سربراہ کو بتانے کا پابند ہے تاکہ جب ان گھروں سے کبھی شادی کا دعوت نامہ آئے تو ان کے قاصد کو بھی اس کے مطابق رقم دے سکیں۔ شادی کے دعوت نامے کو علاقائی زبان میں کانڈھا بھی کہا جاتا ہے ۔شادی کا کانڈھا ایک خوبصور ت روائیت کے ساتھ ساتھ روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔جسے پنجاب کے باسیوں نے ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود ابھی تک ترک نہیں کیا۔ جبکہ شہروں میں شادی کا دعوت نامہ گھر کا سربراہ خود جا کر دیتا ہے۔ وہاں قاصد کے ہاتھ دعوت نامہ بھجوانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اب تو شہریوں کے لئے وٹس ایپ نے زندگی آسان کر دی ہے۔ شہروں میں لوگ اب گھر بیٹھے ہی وٹس ایپ گروپس کے ذریعے ہی شادی کا دعوت نامہ احباب کو بھیج دیتے ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی نے شہر یوں کو اپنے شکمجے میں جکڑ رکھا ہے۔ لیکن دیہاتی کہیں نہ کہیں اس کے شکنجے سے دور اپنی روائیتیں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔