تازہ ترین
Home / Home / کامیابی کا راستہ ۔۔۔ تحریر : فائزہ صابر

کامیابی کا راستہ ۔۔۔ تحریر : فائزہ صابر

آج اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ انسان جو کبھی کچے مکانوں میں رہتا تھا، آج وہ ہی انسان کامیابیوں کی بلند ترین چوٹیوں پر پہنچ چکا ہے۔ وہ ہی انسان جو کبھی اونٹوں،گھوڑوں، اور خچروں پر اور کبھی پیدل سفر بھی کرتا تھا اور اس سفر کو مکمل کرنے کے لئے اسے کئی کئی دن،مہینے حتیٰ کہ سال بھی لگ جاتے تھے۔ آج وہ ہی انسان آسمان کے سینے کو چیر کر فخر سے اس پر پرواز کرتا ہوا نظر آتا ہے۔اور یوں مہینوں کا سفر گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کر لیتا ہے۔ یہ سب یقیناً بہت بڑی کامیابیاں ہیں۔لیکن کیا یہ سچ میں کامیابیاں ہیں کہ بس ایک دھوکا ہے۔ اور اگر یہ سب واقعی میں دھوکا ہے تو پھر کامیابی کسے کہتے ہیں۔ تو آئیے قرآن وسنت کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اصل میں کامیابی کس کو کہتے ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا کامیابی اس چیز کا نام ہے کہ انسان کے پاس بڑا سا گھر ہو، نوکر چاکر ہوں ،مال و دولت ہو، ہر طرف اس کا رعب و دبدبہ ہو۔ کیا یہ کامیابی کہلاتی ہے۔ بالکل نہیں۔ ان سب چیزوں کا موجود ہونا کامیابی کی دلیل ہر گز نہیں ہے۔ لیکن بد قسمتی سے آج کے دور کا ہر انسان ان مادی چیزوں کو ہی کامیابی تصور کرتا ہے۔ لیکن قرآن کریم میں جس کامیابی کا ذکر ہے وہ تو کچھ اور ہے۔ سورہ المؤمنون میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵))ترجمۂ کنزالعرفان : بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (پ18 ، المؤمنون : 1تا5
ان روشن آیتوں میں اللہ پاک نے کامیاب لوگوں کے بارے میں بتا دیا ہے کہ جو لوگ ایمان والے ہیں وہی کامیاب ہیں ۔اور ایمان والے پتا ہے کون ہوتے ہیں۔ایمان والے وہ ہوتے ہیں جو دل سے ایمان لاتے ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں،جو اللہ کا ہر حکم مانتے ہیں۔جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔جو ہر حکم الٰہی بجا لاتے ہیں۔اور اللہ کا سب سے بڑا حکم کیا ہے۔سب سے بڑا توحکم نماز ہے۔ تو کیا ہم نماز کی پابندی کر رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنا محاسبہ بھی ساتھ ساتھ کرنا ہے کہ ہم کامیاب ہیں کہ نہیں۔یا ہم بھی دنیا کے دھوکے میں آئے ہوئے ہیں۔ تو کیا صرف نماز پڑھنا کافی ہےلیکن اللہ پاک نے تو نماز کے ساتھ اور بھی شرائط رکھیں ہیں کامیاب لوگوں کی۔ وہ کیا ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کامیاب وہ ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔اب خشوع و خضوع سے کیا مراد ہے۔اس سے مراد ہے رونا گڑگڑانا۔اللہ کی بارگاہ میں ہمیں اس کے سامنے رونا اور گڑگڑانا ہے جبھی ہم کامیاب ہوں گے۔لیکن کیا ہماری نمازوں میں خشوع وخضوع ہوتا ہے۔ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نمازیں بھی دنیا جہان کے خیالوں میں گم ہو کر پڑھتے ہیں۔ جب بھی ہم نماز پڑھتے ہیں ہمیں دنیا جہان کے وہ وہ خیالات آجاتے ہیں کہ کبھی فارغ وقت میں بھی وہ نہیں آئے ہوتے۔ تو کیا ایسی نمازوں کے ساتھ ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ ہر گز نہیں۔ایسی بے توجہی کے ساتھ ادا کی گئی نمازوں کے لئے سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ جن میں سے ایک عرض کرتی ہوں۔ ”فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّیْنَo الَّذِیْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُونَo الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآئُوْنَo“ بڑي خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں جو ایسے ہیں کہ دکھلاوا کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں بھی خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والوں کے لیے فضائل اور بلاخشوع نماز پڑھنے والوں کے لیے وعیدیں آئی ہیں، ایک حدیث میں ہے: ”حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے، وضو بھی اچھی طرح کرے خشوع خضوع سے بھی پڑھے، کھڑا بھی پورے وقار سے ہو پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اطمینان سے کرے، غرض ہرچیز کو اچھی طرح ادا کرے تو وہ نماز نہایت روشن چمک دار بن کر جاتی ہے اور نمازی کو دعا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تونے میری حفاظت کی۔ اور جو شخص نماز کو بری طرح سے پڑھے وقت کو بھی ٹال دے وضو بھی اچھی طرح نہ کرے رکوع سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز بری صورت سے سیاہ رنگ میں بد دعاء دیتی ہوئی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے جیسا تو نے مجھے ضائع کیا، اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منھ پر ماردی جاتی ہے“۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط کذا فی الترغیب والدر المنثور)
اللہ اکبر کبیرا!! غافل ہو کر نماز پڑھنے والوں کے لئے کتنی سخت وعید سنائی گئی ہے کہ ان کی نماز پرانے کپڑے میں لپیٹ کر ان کے منہ پر ماری جائے گی۔استغفر اللہ ! اللہ پاک ہمیں خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
اسکے بعد کامیاب لوگ کونسے ہیں تو دوسری آیت میں ہے کہ وہ لوگ جو فضول باتوں سے منہ پھیرنے والے ہیں۔مطلب یہ کہ وہ لایعنی باتوں میں نہیں پڑتے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں فضول گوئی بہت زیادہ ہے۔بنا مطلب کے بات کو بڑھایا جاتا ہے جس کی مثال کامیڈی شوز ہیں جس میں فضول سے فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کیا جاتا ہے۔ ایک شاعر نے بھی کیا خوب لکھا۔ ہے اس پر ملاحظہ کیجئے۔
بقول شاعر:
یادوں کی باتیں ہوتی ہیں
یا رات کی باتیں ہوتی ہیں
یہ دنیا ہے اس دنیا میں
ہر بات کی باتیں ہوتی ہیں
دن رات تمہاری محفل میں
دن رات کی باتیں ہوتی ہیں
کچھ بات نہیں ہوتی لیکن
بے بات کی باتیں ہوتی ہیں
جس بات کی باتیں ہوتیں ہیں
اس بات میں کوئی بات نہیں
جس بات کی کوئی بات نہیں
اس بات کی باتیں ہوتی ہیں
اور جس بات پہ اتنی بات بڑھی
اس بات میں کوئی بات نہ تھی
جب بات پہ بات آجاتی ہے
تب بات کی باتیں ہوتی ہیں

مندرجہ بالا اشعار ہماری زندگی میں کی جانے والی فضول گوئی کی مکمل طور پر عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن ہم تو مومن ہیں۔ اور مومن کی تخلیق کا مقصد ہی عبادت الٰہی ہے۔لیکن بد قسمتی سے ہم اپنا مقصد حیات بھول بیٹھے ہیں اور فضول کاموں میں لگ کر اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ کیا ایک مومن کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اسے دنیا کی رنگینیوں میں ضائع کردے۔ ہر گز نہیں ہے۔ موت کی تلوار ہمارے سروں پر لٹک رہی ہیں کچھ پتا نہیں کہ کب ہم اس کی زد میں آجائیں ۔اور موت سے جاملیں۔ لیکن جتنا بھی وقت ہمیں میسر ہو ہمیں چاہئے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھائیں اور نیکیاں اکٹھی کرنے میں لگائیں۔ لیکن ہم اپنا قیمتی وقت ایسے کاموں میں صرف کر رہے ہیں کہ جن کا ہمیں روز محشر میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تو ضروری امر یہ ہے کہ ہم اس وقت کو غنیمت جانیں اور اسے ضائع ہونے سے بچائیں۔اور نیکیاں کرنے میں گزاریں۔
تیسری آیت میں زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ جو لوگ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں وہ بھی کامیاب لوگ میں شمار ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں لوگ سب سے زیادہ مال کے حریص ہو چکے ہیں۔ مال کی حرص نے لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔لوگ بس مال کو جمع کرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔اور اس طرح سے غریبوں کا حق پامال ہو رہا ہے۔ اس طرح سے مال جمع کرنے والوں کے لئے بھی سخت وعید سنائی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ وَ ظُہُوۡرُہُمۡ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُوۡنَ
جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس دن ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی ( ان سے کہا جائے گا ) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا ۔ پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو ۔
اللہ اکبر کبیرا !! کس قدر سخت وعید ہے۔ان لوگوں کے لئے جو مال جمع کر کر کے غریبوں کا حق بھی کھا رہے ہیں۔ اور جسکی وجہ سے ہمارا معاشرتی نظام بگڑ رہا ہے۔ امیر،امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب مزید غریب تر ہو رہا ہے۔اور یوں غربت کو فروغ مل رہا ہے۔ جس سے معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔ تو مالدار لوگوں کو چاہئے کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں اور کامیاب لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں۔
چوتھی آیت میں ان لوگوں کے متعلق بتایا گیا ہے جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔وہی لوگ کامیاب ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ برائی اتنی تیزی سے عام ہو رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ اس کے ذریعے لوگں میں یہ برائی مزید پروان چڑھ رہی ہے ۔ آئے دن کہیں نہ کہیں زیادتی کے واقع رونما ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان سب کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ نفس کی تسکین کے لئے انسان اس قدر پاگل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو ہی بھول جاتا ہے۔اور برائی کے دلدل میں پھنستا ہی چلا جاتا ہے۔ اگر ہر کوئی اس آ یت کو اپنے ذہن میں رکھے تو معاشرے میں ایسی برائیوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن ایک حدیث بیان کرتی ہوں کہ:
سہل بن سعد رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرمگاہ) کی حفاظت کی ضمانت دیدے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں”
اس حدیث میں واضح بتا دیا گیا ہے کہ جو کوئی مندرجہ بالا دونوں چیزوں ( زبان،شرمگاہ) کی حفاظت کرے گا تو اسے جنت کی ضمانت دے دی جائے گی۔ لیکن بد قسمتی سے ہم وقتی تسکین اور لذت کے لئے ہمیشہ رہنے والے عذاب کو دعوت دے لیتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان پانچ آیتوں پر عمل کر لیں۔ تو ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اور یہ ہی اصل کامیابی ہے۔ لیکن ہم لوگ عارضی دنیا کے پیچھے لگ کر اصل امتحان کے بارے میں بھول گئے ہیں۔ یہ دنیا دارالعمل ہے۔ یعنی عمل کی جگہ ہے۔یہاں پہ کئے گئے نیک اعمال ہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہیں۔وگرنہ جو پہلے گزرنے والی قوموں کا حال ہے۔وہ ہم سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ آج ان کے نام و نشان بھی نہیں ملتے۔ لیکن نیک لوگوں کا بول بالا آج بھی ہے۔ تو آج سے ہی کامیاب ہونے کے لئے کوششیں شروع کردیجئے ۔ موت کی کچھ خبر نہیں کہ کب آجائے ۔اللہ پاک ہمیں نیک عمل کی تو فیق عطا فرمائے۔

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

اسٹیٹ بینک میوزیم اینڈ آرٹ گیلری کے ٹریولنگ نمائش میں جوجٹسو کے مظاہرے نے ناظرین کو مسحور کردیا

کراچی، (رپورٹ، ذیشان حسین) اسٹیٹ بینک میوزیم اور پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن سندھ نے …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے