تازہ ترین
Home / Home / اقبال خلیل۔ وہ باتیں تری وہ فسانے ترے ۔۔۔ تحریر: سید سردار احمد پیرزادہ

اقبال خلیل۔ وہ باتیں تری وہ فسانے ترے ۔۔۔ تحریر: سید سردار احمد پیرزادہ


؎ میں یہ کالم لکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میرے میں ہمت نہیں تھی لیکن مجبور ہوگیا۔ میرے کانوں میں ایک آواز گونجی۔ ”اوئے شہزادے توں کتھوں دا ایں؟ (یار شہزادے تم کہاں کے رہنے والے ہو؟)“ یہ 1983ء کے ستمبر اکتوبر کے دن تھے جب پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت میں ایم اے جرنلزم کی نئی کلاس کی آمد ہوئی۔ اُن سب کے لیے سب کچھ نیا تھا۔ دھیمی دھیمی آزادی کا نیا خوشگوار ماحول، نئے اجنبی لڑکے لڑکیاں، نئے چہرے یعنی سب کچھ ہی نیا لیکن مست مست۔ کلاس ختم ہوئی، پروفیسر صاحب کمرے سے باہر نکلے تو حیرت کدہ کے نئے نویلوں نے ایک دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مختلف حرکات شروع کیں۔ کچھ اٹھ کر باہر چلے گئے، کچھ ایک دوسرے سے گپ کرنے لگے اور کچھ نے اپنا علمی رعب جمانے کے لیے فلسفیانہ شکل بنالی۔ میں کلاس سے باہر ٹیرس کے بنیرے کے ساتھ کھڑا تھا کہ ایک آواز نے مجھے اپنی طرف کھینچا۔ ”اوئے شہزادے توں کتھوں دا ایں؟“ میں ابھی اِس فرینک اور توتڑاخ والی شخصیت کی طرف مڑا بھی نہیں تھا کہ اُس نے میرے کندھے پر ہاتھ مارا اور کہا ”اوئے شہزادے کدی توں گوالمنڈی آئیں تینوں ایسے کھانے کھواواں گا کہ یاد کریں گا (یار شہزادے تم کبھی گوالمنڈی آنا تمہیں ایسے کھانے کھلاؤں گا کہ یاد کرو گے)“۔ میں اب حیرانگی کی بجائے نسبتاً زیادہ دلچسپی سے اُس کی طرف دیکھ رہا تھا اور کہنے کے لیے ابتدائی جملے طے کر ہی رہا تھا کہ وہ کسی اور کے پاس جاکھڑا ہوا۔ یہ اقبال خلیل تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اُس کی گفتگو جتنی معصومانہ تھی وہ خود اُس سے زیادہ مجسمہ معصومیت تھا۔ اقبال خلیل نے ہمارے ساتھ ایم اے جرنلزم کیا اور اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ سے ہوتے ہوئے یونیورسٹی کی کئی اہم ذمہ داریاں نبھائیں اور ڈپٹی رجسٹرار کے عہدے پر فائز ہوا۔ اُس کی ریٹائرمنٹ تک کی 4دہائیوں کے درمیان بہت کچھ بدل گیا بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ سب کچھ بدل گیا۔ حکومتیں، معاشرت، رہن سہن، ابلاغی ذرائع، سب کے سب نئے ترین آگئے۔ اِن کو اِن میں رہنے والے اور اِن کو استعمال کرنے والے بھی ویسے نہ رہے۔ مزاج بدل گئے، شکلیں بدل گئیں اور عمریں بھی بدل گئیں لیکن اقبال خلیل نہ بدلا۔ اُس کی ہرایک کے ساتھ معصومیت بھری پرخلوص دوستی نہ بدلی۔ اس کا ہر ایک کے ساتھ اپنائیت والا فرینک مزاج نہ بدلا۔ دوسروں کے کاموں کے لیے اپنے دن رات اور سردی گرمی کی پرواہ کیے بغیر دھن میں لگ جانا نہ بدلا۔ ایک دفعہ گرمیوں کی دوپہر تھی۔ میں اسلام آباد میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب گرمیوں کی دوپہر میں دفتروں میں بھی سستی چھائی ہوتی ہے۔ اچانک میرے کمرے کا دروازہ کھڑاک سے کھلا اور تین چار افراد کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ ابھی میں غور ہی کررہا تھا کہ آواز آئی ”اوئے شہزادے چل ٹھنڈی بوتلاں منگوا گرمی بوت اے (یار شہزادے چلو ٹھنڈی بوتلیں منگواؤ، گرمی بہت ہے)“۔ اقبال خلیل نے آتے ہی کسی توقف کے بغیر اسلام آباد اپنی آمد کی وجہ اور دوستوں کا تعارف کروا دیا۔ جس طرح وہ آیا تھا اُسی طرح ٹھنڈا مشروب پینے کے بعد وہ اچانک اٹھا، زور سے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارکر سلام کیا اور میرے بہت زیادہ اصرار کو سنا اَن سنا کرکے کمرے کا دروازہ ٹھاہ بند کیا اور چلا گیا۔ اقبال خلیل واقعی ہی ہوا کا جھونکا تھا۔ خوشبو والا، مسرت والا اور طمانیت والا۔ شروع شروع میں میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ میرے ساتھ ہی زیادہ فرینک ہے، میرا ہی دوست ہے لیکن جس جس سے اُس سے متعلق گفتگو ہوئی مجھے لگا کہ اقبال خلیل کے بارے میں ہرشخص کی یہی رائے ہے کہ وہ اُس کا زیادہ دوست ہے۔ یہ کمال ہرانسان کو نہیں ملتا بلکہ جس پر قدرت مہربان ہوتی ہے وہ شخص مہربان ہوکر سب کے دلوں میں سما جاتا ہے۔ مجھے 90ء کی دہائی کے آخر کی وہ ایک رات بھی یاد ہے کہ جب میں پی ٹی وی پر نوبجے کا خبرنامہ سن کر گھر کے لاؤنج سے گیٹ کو بند کرنے گیا تو اچانک گیٹ کے باہر سے آواز آئی ”اوئے شہزادے“۔ میں ایک لمحے کو گھبرا سا گیا کیونکہ سمجھ نہ پایا کہ یہ کون ہے۔ پھر وہی آواز آئی ”اوئے توں پہچانیا نئی؟ (یار تم نے پہچانا نہیں؟)“۔ جب تک میں سنبھل چکا تھا۔ میں نے گیٹ کے ساتھ ساتھ اپنے بازو بھی کھول دیئے تو اقبال خلیل اچھل کر میرے گلے لگ گیا۔ اس کے ساتھ حسب عادت دوتین لوگ تھے۔ اقبال خلیل نے اپنی روایتی روانی میں بولنا شروع کیا۔ ”چل اوئے شہزادے جلدی کر بیٹھک کھول۔ اسی کھانا کھا کے آئے آں، سانوں چا پیوا، اسی واپس لہور جانا اے (یار شہزادے جلدی کرو ڈرائنگ روم کھولو۔ ہم کھانا کھا کے آئے ہیں، ہمیں چائے پلاؤ، ہمیں واپس لاہور جانا ہے)“۔ ہمیشہ کی طرح اس نے میرے بغیر پوچھے اپنے آنے کی وجہ بتائی اور قہقہے لگاتے ہوئے واپس جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ میں نے زبردستی بٹھانے اور رات یہیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا اور ہاتھ چھڑا کر تیزی سے یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ ”شہزادے فیر ملاں گے (شہزادے پھر ملیں گے)“۔ چند برس قبل ہم نے ایم اے جرنلزم کی کلاس کا ایک واٹس ایپ گروپ بنایا۔ یہ اس گروپ کی برکات تھیں کہ 35برس پرانے دوست آپس میں مل گئے۔ ہم نے اس گروپ یا یوں کہئے کہ ایم اے جرنلزم 1983ء کے سیشن کے کلاس فیلوز کی الومینائی کے اینوئل ڈنرز شروع کئے۔ اسی دوران اقبال خلیل نے یونیورسٹی ٹاؤن لاہور میں اپنا ذاتی گھر بنانے کا آغاز کیا۔ مجھے اس کا فون آیا۔ ”یار شہزادے ایدکی اینوئل ڈنر میرے گھر رکھیں، بڑی جگہ اے (یار شہزادے اس بار اینوئل ڈنر میرے گھر رکھنا، بہت جگہ ہے)“۔ میں اس کی معصومیت سے واقف تھا۔ میرا دل چاہا کہ اسے گلے لگا لوں۔ تاہم فون پر میں نے ہنس کر اس کا شکریہ ادا کیا لیکن وہ بضد رہا۔ اب یہ چند ہفتے قبل یعنی مارچ 2023ء کی ایک شام کا ذکر ہے کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ وہ نمبر لاہور میں میرے ایک دوسرے دوست کا تھا۔ میں نے جونہی موبائل آن کیا آگے سے ایک شوخ چنچل اور زندگی سے بھرپور آواز آئی۔ ”اوئے شہزادے توں من پہچانیا؟“۔ میں اقبال خلیل کو کیسے نہ پہچانتا؟ وہ اور میرا دوسرا دوست کسی شادی میں اکٹھے ہوئے تو اقبال خلیل نے مجھے اُس کے فون سے اپنی آواز کی نعمت سے نوازا۔ جی ہاں میں نے نعمت سے نوازا کے الفاظ سوچ سمجھ کر لکھے ہیں کیونکہ اقبال خلیل زندگی تھااور جس سے بات کرتا اس میں بھی زندگی چھا جاتی۔ وہ سرتاپا رونق تھا لیکن کیا کریں اقبال خلیل مخلوق بھی تھا، اُس پیارے خالق کی مخلوق۔ 8اپریل کو اُسے یہاں سے جانے کا حکم آگیا۔ وہ سب کا پیارا اللہ کو پیارا ہوگیا۔ نیک روحوں کی کچھ نشانیاں ہوتی ہیں۔ اقبال خلیل سے سب پیار کرتے تھے، یہ ایک نشانی تھی۔ اقبال خلیل کا بہت بڑا جنازہ ہوا، یہ بھی ایک نشانی تھی۔ اہم ترین نشانیوں میں سے ایک یہ کہ اُسے قبر کی پہلی رات 18 رمضان المبارک کی نصیب ہوئی، یہ بھی ایک بڑی نشانی ہے۔ ہاں ایک دنیاوی نشانی بھی سن لیجئے۔ میں نے اگلے روز کے اخبارات دیکھے تو میں ٹھٹھک گیا۔ پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار میں بھی اقبال خلیل کے انتقال کی خبر تھی۔ وہ واقعی ہی ایک بڑا آدمی تھا کیونکہ وفاقی دارالحکومت کے میڈیا اور خاص طور پر انگریزی میڈیا میں بڑے لوگوں کے انتقال کی ہی خبریں آتی ہیں۔ ہمارے چند کلاس فیلوز پچھلے کچھ عرصے میں جلدی جلدی چلے گئے۔ اُن کی یادوں نے میری ہمت کمزور کردی۔ میں یہ کالم نہیں لکھنا چاہتا تھا لیکن وہ آواز زندگی بن کر میرے کانوں میں گونج رہی ہے ”اوئے شہزادے، اوئے شہزادے“۔ اس کے جواب میں میں صرف یہی کہہ سکا ہوں کہ ہم نہیں اقبال خلیل تم واقعی شہزادے تھے، تم ہمارے دلوں کے شہزادے ہی رہو گے، جا شہزادے، سوہنے رب دے حوالے۔
مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

ہم عوام کے ہر دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہیں

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے