تازہ ترین
Home / Home / رومان و مزاحمت کا ہم طراز فیض احمد فیض ۔۔۔ تحریر : حمیرا جمیل، سیالکوٹ

رومان و مزاحمت کا ہم طراز فیض احمد فیض ۔۔۔ تحریر : حمیرا جمیل، سیالکوٹ

فیض احمد فیض کا شمار ایسے قابلِ فخر شعراء میں ہوتا ہے. جن کی رومانوی شاعری اور غزلوں کے ساتھ انقلابی شاعری نے بھی بے حد شہرت حاصل کی. ان کی پہلی شاعری کی کتاب نقش فریادی١٩٤١میں چھپ کر سامنے آئی۔ اس کے بعد ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں دستِ صبا ،زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادی سینا، مرے دل مرے مسافر شامل ہیں. فیض احمد فیض ١٣فروری ١٩١١کو شاعر مشرق علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.محبت، مزاحمت ،سماجی انصاف اور آزادی فیض کی شاعری کے بنیادی موضوعات تھے. ان کی سب سے مقبول نظم”ہم دیکھیں گئے” پوری دنیا میں جمہوری اور مزاحمتی تحریکوں کا ترانہ بن گئی. فیض نے سوشلزم سے وابستگی اور آزادانہ اظہار خیال کی سخت سزا برداشت کی، چار سال قید وبند میں رہے لیکن ان کی سوچ پر پہرے نہ لگائے جاسکے۔
فیض احمد فیض نے ہر طرح کی شاعری کی مگر ان کی شاعری میں ترقی پسند تحریک کا اثر نمایاں ہے اور اس تحریک سے منسلک ہونے کے بعد ان کے کلام میں انقلاب جوش اور بلند خیال کو بآسانی دیکھا جاسکتا ہے.اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ فیض نے زندگی کے ہر رنگ کو بہت قریب سے دیکھا ہے. اس کے علاوہ دیگر ترقی پسند شاعروں کی طرح ان کی ابتدائی شاعری میں بھی رومانوی لب و لہجہ غالب ہے. مگر یہ رومانویت فیض کے مزاج کا حصہ ہے اور مرتے دم تک ان کے کلام میں موجود رہتی ہے. فیض کے ہاں غم جاناں اور غم دوراں ایک ہی پیکر میں اکھٹے ہیں. فیض کا فنی کمال یہ ہے کہ انہوں نے کلاسیکیت اور رومانویت کو شعر کے انداز میں ڈھال کر ایک بے مثل اسلوب اور لہجہ تخلیق کیا ہے.

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وار گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تارے کی راہوں میں مارے گئے

فیض کی غزلوں میں تہہ داری، کلاسیکی رنگ اور دلفریبی کے ساتھ پیکر تراشی ہے جو قاری کو دیر تک اپنی پکڑ میں لیے رکھتی ہے. اپنے نادر الفاظ کو محبت کے موتیوں میں پردینے والے فیض کو مرزا غالب ،اقبال اور جوش ملیح آبادی کے بعد اردو کا عظیم شاعر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے. فیض کی شاعری میں جمالیاتی پہلو موجود ہونے کے ساتھ بحریں مترنم الفاظ سبک شیریں اور شعری تمثیلیں خوبصورت ہیں. فیض کی شاعری کے متعلق اور اس میں تہذیب و جمالیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شکیل الرحمن کہتے ہیں کہ:
"فیض احمد فیض برصغیر کی تہذیب کی جمالیات سے رشتہ رکھتے ہیں جس کی جڑیں اس زمین کی گہرائیوں میں پیوست اور دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں. فیض کی شخصیت کا ارتقا اسی تہذیب میں ہوا ہے………”
"نقش فریادی” فیض کی نظموں اور غزلوں کا پہلا مجموعہ کلام ہے جہاں رومان کی آنچ تیز ہے. "نقش فریادی” کے چھپنے تک فیض پر رومان اور رومانی موضوعات کا اثر بہت گہرا دکھائی دیتا ہے. فیض کے اس شعری مجموعے میں عشق و محبت کی کہانیاں موجود ہیں وہ عشق کی آنکھ سے محبوب کو دیکھتا ہے. "نقش فریادی کے آغاز ہی میں فیض لکھتے ہیں:

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

فیض احمد فیض کی شاعری میں عشق، انقلاب اور مزاحمت آپس میں اس طرح مل گئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا مشکل ہے.ایک طرف انقلاب تو دوسری طرف رومان اس کے باوجود فیض نے نہ تو انقلاب سے دامن بچایا اور نہ ہی رومانیت کو ترک کیا. فیض کارومان سے حقیقت کی طرف سفر اور اس بات سے بھی بخوبی واقفیت کہ روٹی، کپڑا اور مکان یہ تمام ضرورتیں جسم سے متعلق ہیں روح کے سکون کے لیے روٹی کپڑے کے ساتھ رومان کا ہونا بھی ضروری ہے. بقول ڈاکٹر تقی عابدی:
"فیض کا سفر مجاز اور رومان سے حقیقت اور انقلاب تک کبھی پورا نہ ہوسکا. فیض تمام عمر ایک پانو رومانیت اور دوسرا پانو انقلابیت کی سرزمین میں رکھ کرزندگی بسر کرتے رہے. فیض نے رومان اور انقلاب میں انتہاپسندی قبول نہیں کی…….”
فیض کی شاعری میں محبت کا ذکر تو ہے لیکن اس محبت کا تعلق محبوب کے گرد چکر لگانے تک محدود نہیں ہے، فیض کی یہ محبت زندگی کے ہر اُس چہرے سے ہے جو تکلیف اور پریشانی کا شکار ہے. وہ محبت کو بھی مزاحمت کی صورت میں پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں. وہ اپنے کلام میں وصل کی شب کو بھی جہدِ مسلسل کی علامت اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں. وہ کمزور، کسانوں اور مزدوروں کو نہ صرف حوصلہ دیتے ہیں بلکہ ان کو سینے سے لگاتے اور اُن کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو پونچھتے ہیں.فیض ظلم سہنے والوں کو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے پر اکساتے ہیں:

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
بول کے سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہو کہہ لے

فیض کی شاعری میں قیدی تنہائی کا سناٹا بھی ہے اور زور قلم کا فراٹا بھی…… عوام کے حقوق کی باتیں بھی ہیں، پچھلے پہر کی یادیں بھی اور دیدہ و دل کی فریادیں بھی…..فیض حالات کی تاریکی میں بھی امید کی شمع کو روشن رکھتے ہیں. نظم”سوچ” میں مزاحمتی لہجے کی عمدہ تصویر کشی کی گئی ہے.

ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
سر پھوٹیں گئے خون بہے گئے
خون میں غم بھی بہ جائیں گئے
ہم نہ رہے، غم بھی نہ رہے گا

نظم”ہم دیکھیں گئے”آمروں کے خلاف وہ نعرہ ہے جو برصغیر کے کئی ملکوں میں مزاحمت کا ایک مستقل استعارہ بن چکی ہے۔

ہم دیکھیں گئے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گئے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گئے
ہم دیکھیں گئے

برصغیر کا یہ لازوال شاعر جب آمریت، ظلم اور آزادی کی بات کرتا ہے تو وہ تمام دینا کی کہانی بیان کرتا ہے۔ فیض کی پوری زندگی اور شاعری ان ہی نظریات کی ترجمان ہے جو آج کی نئی نسل کی تحریکوں کا بنیادی تخیل ہے۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو ادب میں جو شہرت فیض احمد فیض کو نصیب ہوئی وہ کسی دوسرے شاعر کے حصے میں نہ آئی.ادبی فلک پر ان کی الگ پہچان ہے. فیض احمد فیض کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ آسمانِ سخن پر دمکتا یہ درخشاں ستارہ اپنے جانے کے بعد بھی شاعری ورثے کی شکل میں ایسی چمک چھوڑ گیا، جس کی روشن کرنوں سے اب بھی لوگ فیض یاب ہورہے ہیں۔

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

چیچہ وطنی کے زمیندار کی زمین پر بااثر افراد کا قبضہ،

 پولیس کی سرپرستی میں کارروائی، ایس ایچ او کی اپنی عدالت!   ساہیوال / چیچہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے