کراچی، ( رپورٹ، ذیشان حسین) عالمی ادارہ صحت نے محکمہ سندھ کو ایمبولینسز، الیکٹرک اسکوٹیز، لیبر روم کا سامان، ٹرانسپورٹیشن انکیوبیٹرز اور دیگر اشیاء عطیہ کر دیں، طبی سامان عطیہ کرنے کی تقریب ایکسپینڈڈ پروگرام آن ایمونائزیشن ای پی آئی کے دفتر میں منعقد ہوئی۔ نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز کی موجودگی میں ڈی جی ہیلتھ سندھ ڈاکٹر وقار محمود نے عالمی ادارہ صحت سندھ کی سربراہ ڈاکٹر سارہ سلمان سے سامان وصول کیا۔ اس موقع پر سندھ انٹیگریٹڈ ایمرجنسی اینڈ ہیلتھ سروسز کے سی ای او برگیڈئیر ر طارق قادر لکھیار، ڈائریکٹر ای پی آئی ڈاکٹر نعیم، ڈائریکٹر ایم این سی ایچ ڈاکٹر فرحانہ میمن و دیگر موجود تھے۔ تقریب کے بعد میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کا شکریہ اداکرنا چاہتا ہوں کہ ڈبلیو ایچ او نے 150 بیسک ہیلتھ یونٹس کو بہتر کیا، محکمہ صحت سندھ جلد ویل ویمن کلینک کا افتتاح کرے گا، ہماری کوشش ہے کہ اس منصوبے کو 150 کلینک تک توسیع دیں، ان کلینکس میں چھاتی کے سرطان اور خواتین کے کمیونیکیبل، نان کمیونیکیبل ڈیزیز سمیت ان کے بچوں کو غذائیت اور ایمونائزیشن کی سہولت مہیا کی جائیں گی، ان کلینک کے ساتھ ڈبلیو ایچ او نے ایک ڈبل کیبن، خواتین ویکسینیٹرز کے لیے 55 اسکوٹیز، 3 جدید ایمبولینسز، ایمبولینسز کے لیے 9 ٹرانسپورٹ انکیوبیٹرز، پانچ سو سے زائد ویکسینیٹرز کے لیے یونیفارمز، دو ہزار سے زائد کولرہ ہائیجین کٹس، نگرانی کے لیے11 سو نوکیا ٹیبلیٹس، 14 سو سے زائد ویسٹ بنز، دو ڈینٹل یونٹس، 20 بڑے اور باقی دیگر سائز کے خیمے، پی ایچ سی کے کیے پانچ سو چھوٹے واٹر فلٹریشن یونٹس، ایک لاکھ کی آبادی کے لیے ضروری ادویات، سو سے زائد صحت کے مراکز میں رسد و سامان سمیت لیبر رومز وغیرہ فراہم کیے ہیں جس پر ہم انکے انتہائی مشکور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہماری تمام تر توجہ بنیادی صحت کی سہولیات کی فراہمی پر مرکوز ہیں اور اسی لیے چاہتے ہیں کہ فراہم کیے گئے سامان کا درست استعمال مستحق شہریوں کے لیئے مفید ثابت ہوگا، ہم نے لوگوں کو صحت کی مفت اور معیاری سہولیات دینے کی کوشش ہے تاکہ رات کو اطمینان و سکون کی نیند سو سکیں۔ انھوں نے کہا کہ محکمہ صحت سندھ کے لیئے ڈیجیٹلائزیشن اور ہیلتھ انشورنس پالیسی کے منصوبے اہمیت کے حامل تھے جو صرف ایک شخص کی تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اسپتالوں میں ایمبولینسز اینٹوں اور بلاکس پر کھڑی ہیں، ایمبولینسیں ریسکیو 1122 کے پاس ہونی چاہیئں، اس وقت ریسکیو 1122 کے پاس 374 ایمبولنسیں ہیں جبکہ عالمی معیار کے مطابق رسپانس ٹائم دس منٹ کے دورانیے کے لیے ہمیں مزید 1100 ایمبولینسوں کی طلب ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ نئی حکومت میں ابھی مزید وقت ہے جس میں ہم ڈیٹا اور ریکارڈ کے لیئے کام کرسکتے ہیں، میں کسی فرد کو شہریت کے اصول نہیں بتاسکتا کیونکہ ذمہ داری کا احساس کسی بھی شخص کے ضمیر کی اندر ہونا چاہیئے تاہم اب وقت آگیا ہے کہ مسیحاؤں کا انتظار نہ کیا جائے، چوری ایک ادارہ یا طبقہ نہیں کررہا، اگر کوئی چوری کی چیز فروخت کرتا ہے تو دوسرا خرید بھی تو رہا ہے لہذا پوری قوم کو تبدیلی کی جانب جانا ہوگا۔ ایمبولینس میں ڈاکٹر کی موجودگی سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ دنیا کی کسی ایمبولینس میں ڈاکٹرز نہیں ہوتے، ڈاکٹر صرف رسک کی صورت ایمبولنس میں جاتا ہے کہ اگر مریض کو منتقل کرنے میں جان کا خطرہ ہو تو ہی ڈاکٹر ایمبولینس میں جاتا ہے، ہمارے پاس خوش قسمتی سے انتہائی تربیت یافتہ اسٹاف کے ساتھ ریسکیو 1122 کی جدید ایمبولینسیں موجود ہیں جن میں اب تک دوران منتقلی 671 ڈلیوریز ہوچکی ہیں اور زچہ یا بچہ میں سے کسی کی بھی کوئی موت واقع نہیں ہوئی ہے۔ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او سے ہم نے گزارش کی ہے اور وہ جلد ہمیں 30 موٹرسائیکل ایمبولینسیں بھی دے گا تاکہ جہاں ایمبولینس نہیں جاسکے گی وہاں موٹرسائیکل ایمبولینس چلی جائے گی۔ سیکریٹری صحت کے گزشتہ و حالیہ معاملے سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سیکریٹری صحت نے نہ کوئی کام کیا اور نہ ہی کرنے دیا، حالیہ بھیجی گئی سمری میں انہوں نے مجھے بائی پاس کیا، مجھے مسئلہ جے ڈی سی سے نہیں بلکہ طریقے سے ہے، اصول و قانون کے مطابق کوئی بھی سمری محکمے سے سیکریٹری اور پھر وزیر کے پاس جاتی ہے اور وزیر کی منظوری کے بعد کابینہ میں پیش ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ میرے اختیارات کم کیے جائیں، سیکریٹری صحت سندھ کی جانب سے بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا، جس کے بعد میں ان کے ساتھ کام نہیں کرسکتا، میرے سوال کرنے پر سیکریٹری کہتے ہیں کہ سر آپ اپنے دفتر میں موجود نہیں تھے حالانکہ 29 دسمبر 2023 کو میں دفتر آیا تھا، سیکریٹری صحت سندھ منصور عباس رضوی سے جب دوبارہ استفسار کیا تو انھوں نے کہا کہ نگراں وزیر اعلٰی سندھ نے ہدایت دی تھی۔ ڈاکٹر سعد خالد نے کہا کہ ڈھائی ارب روپے اس سال اور دو ارب روپے سالانہ وہ بھی اگلے دس سالوں کے لیے منظوری کا مینڈیٹ نگراں سیٹ اپ کا مینڈیٹ نہیں ہے، جناح اور سول اسپتال سالانہ 40 سے 70 لاکھ ٹیسٹ کررہے ہیں، سیکریٹری ان کو 5 کروڑ روپے دینے پر رضامند نہیں ہیں، ہم فلاحی اداروں کو فنڈز فراہم کرتے ہیں، لیکن ان فلاحی اداروں کی اچھی کارکردگی پر محکمہ صحت سندھ کو پزیرائی نہیں ملتی جبکہ سرکاری مراکز صحت میں مسائل پر سوال بھی انہی پر اٹھتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تنخواہوں سمیت 7.5 ارب روپے سول اسپتال کا سالانہ بجٹ ہے 8 ارب جناح اسپتال کا بجٹ ہے جبکہ فلاحی اداروں کا بجٹ ان سے کئی گنا زیادہ ہے، ہم چاہتے ہیں کہ فلاحی اداروں کی ویب سائٹس پر انکا کوسٹ اسٹرکچر سمیت دیگر اخراجات کی تفصیلات ہوں، ہم نے اسی لیے آڈٹ رپورٹ، کوسٹ اور سیلیری اسٹرکچر مانگا تھا لیکن انڈس کے علاوہ کسی فلاحی ادارے نے فارنسک آڈٹ رپورٹ جمع نہیں کروائی۔ انھوں نے کہا کہ صوبائی کابینہ نے کورونا وباء کے دوران کام کرنے والے عملے کی تنخواہوں کی ادائیگی کی منظوری دیدی ہے جو بڑا احسان اقدام ہے اور اس پر میں وزیر اعلی سندھ کا مشکور بھی ہوں، محکمہ صحت سندھ میں اس وقت مجموعی طور پر 35 فیصد عملہ موجود ہی نہیں ہے، محکمہ محض 65 فیصد دستیاب عملے کے ساتھ فرائض انجام دے رہے ہیں اور ان میں گھوسٹ ملازمین ایک الگ بحث ہے۔ انھوں نے کہا کہ سیکریٹری صحت سندھ اور میرا ایک ساتھ کام کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے میں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان، نگراں وزیر اعلٰی سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ کو خط کے ذریعے اپنی شکایت درج کروادی ہے، گذشتہ روز بھی کابینہ اجلاس سے قبل چیف سیکریٹری سندھ نے میری اجازت سے خود اس متنازعہ سمری کو پیش نہیں کرنے دیا۔ انھوں نے کہا کہ محکمہ صحت میں ڈیجیٹلائزیشن کا منصوبہ 2019 میں شروع کیا گیا تھا جس پر 38 کروڑ روپے خرچ بھی کیے گئے مگر وہ منصوبہ محض دو سال بعد 2021 میں بند ہوکر رہ گیا تھا، ہم نے دوبارہ اس منصوبے کو وہیں سے جاری کرنے کے اقدامات کیے لیکن سیکریٹری صحت کی جانب سے وہ منصوبہ ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوگیا ہے اور خدشہ ہے کہ عوام کے پیسے سے اتنی خطیر رقم صرف قصۂ پارینہ نہ ہوجائے۔