تازہ ترین
Home / اہم خبریں / سندھ میں صحت کے شعبے میں عالمی ادارہ صحت کی قابل ستائش خدمات کی فراہمی پر انکے مشکور ہیں، ڈاکٹر سعد خالد نیاز

سندھ میں صحت کے شعبے میں عالمی ادارہ صحت کی قابل ستائش خدمات کی فراہمی پر انکے مشکور ہیں، ڈاکٹر سعد خالد نیاز

کراچی، (رپورٹ، ذیشان حسین) نگراں وزیر صحت، سماجی بہبود، پبلک ہلتھ انجینئرنگ و دیہی ترقی سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا ہے کہ سندھ میں صحت کے شعبے میں عالمی ادارہ صحت کی قابل ستائش خدمات کی فراہمی پر انکے مشکور ہیں، ڈبلیو ایچ او نے اس سے قبل بھی ایمبولینسز، الیکٹرک اسکوٹیز، ٹرانسپورٹیشن انکیوبیٹرز، لیبر روم کا سامان اور طبی آلات فراہم کیے ہیں جبکہ تھرپارکر میں ویل وومن کلینکس کے قیام میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آج بھی صوبے میں ایمرجنسی رسپانس کی کوششوں کو بہتر بنانے کے لیے 25 فرسٹ ریسپونڈرز موٹربائیک ایمبولینسز و دیگر سامان فراہم کیا ہے جو نہ صرف سندھ میں ایمرجنسی رسپانس سروسز جو مضبوط کرے گا بلکہ مریضوں کو ایمبولینس کی فوری رسائی نہ ملنے والوں تک فوری پہنچ کر ابتدائی طبی سہولیات فراہم کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے ای پی آئی سینٹر میں ڈبلیو ایچ او کی جانب سے محکمہ صحت کو موٹربائیکس ایمبولینسز و دیگر سامان کی سپردگی کے لیے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ڈی جی ہیلتھ سندھ ڈاکٹر وقار محمود، ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی ڈاکٹر ثاقب، ڈبلیو ایچ او سندھ کی سربراہ ڈاکٹر سارہ سلمان، سندھ انٹیگریٹڈ ایمرجنسی اینڈ ہیلتھ سروسز کے سی ای او برگیڈئیر طارق قادر لکھیار، پراجیکٹ ڈائریکٹر ای پی آئی سندھ ڈاکٹر نعیم و دیگر بھی موجود تھے۔ نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے ملنے والی 25 موٹربائیک ایمبولینسز ہنگامی صورت میں ایمرجنسی رسپانس کے لیے سندھ انٹیگریٹڈ ایمرجنسی اینڈ ہیلتھ سروسز (1122) کے سپرد کردی ہیں، ریسکیو 1122 مکمل طور پر فعال ادارہ ہے جس کی ایمبولینسز میں 650 سے زائد کامیاب ڈیولیوریز ہوچکی ہیں، ریسکیو 1122 کے فلیٹ میں اس وقت تمام ضروری طبی آلات و تربیت یافتہ عملے سمیت371 باقاعدہ ایمبولینس موجود ہیں جو ہمارے حساب سے تاحال کم ہیں جس میں اضافے کے کیے ہم اقدامات کررہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں ٹرشری کیئر کی صورتحال قدر بہتر ہے تاہم نگراں دور حکومت میں ہماری تمام توجہ بنیادی صحت کی بہتری، پیپلز ہیلتھ انشورنس کے نفاذ اور آٹومیشن پر رہی ہے، نٸی منتخب حکومت کو بھی اس پر کام کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی تھی ہر چیز کو میرٹ ہر پرکھا جائے، ہم نے میرٹ کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے ڈی جی، ڈی ایچ اوز یا ایم ایس کے عہدوں کے لیے انٹرویوز کیے، ہم نے پیپلز ہیلتھ انشورنس کی سمری بھیج دی تھی لہذا میری نو منتخب حکومت سے درخواست ہے کہ سب تیار ہے اور اگر وہ چاہیں تو سندھ کے عوام کے وسیع تر مفاد میں ہمارے اقدامات کی منظوری دے سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے صحت کے شعبے میں آٹومیشن کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آٹومیشن پر بھی کام کیا ہے اور ہم اس کی بھی بنیاد بنا کر نٸے حکومت کو دے دیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں میں کسی بھی صورت میں لگنے والی آگ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کے خاطر خواہ اقدامات نہیں ہیں، فائر فائٹنگ کا پورا ایک نظام ہوتا ہے ، عملے ٹریننگ ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے کوئی موثر نظام سرکاری اسپتالوں میں دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ ایک مزید سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم نے خیراتی اسپتالوں سے تنخواہوں، فی بیڈ اخراجات اور چھوٹے بڑے آپریشنز پر خرچ ہونے والی رقم کی آڈٹ رپورٹ مانگی جو انڈس اسپتال کے علاوہ کسی نے فراہم نہیں کی۔ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ سول اور جناح اسپتال کا مشترکہ بجٹ پندرہ اشاریہ کچھ بلین ہے، اور انکے بستروں کی تعداد لگ بھگ چار ہزار ہے، ہمارے سرکاری اسپتالوں میں عملے کی نئی بھرتیاں تو دور مجموعی طور پر منظور شدہ عملے کی تعداد کا چالیس فیصد تک عملے کا شارٹ فال ہے، جو کوئی کام نہیں کرے تو کوئی بات نہیں اور اگر کوئی پوری جانفشانی سے کام کرے تب بھی کوئی بات نہیں، کسی کو محض معطل کیا جائے اور تنخواہ جاری رکھی جائے، کسی کے اچھے کام کی حوصلہ افزائی تک بھی نہ کی جاسکے تو کیسے ہم سرکاری اسپتالوں کا نجی اداروں سے موازنہ کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنے ادارے سیاگ کا چھ مہینوں کا آڈٹ دینے کو تیار ہوں لیکن چھ ماہ قبل قائم ہوئے سیاگ کا کوئی بھی آڈیٹر تین سال کا آڈٹ کرنے کو تیار نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر ہم ہیلتھ انشورنس پر جائیں اور اس پر مانیٹرنگ کریں تو اس کے ذریعے اسپتالوں کو اضافی پیسے مل سکتے ہیں۔ کراچی میں ڈرگز انسپکٹرز سے متعلق پوچھے گئے سوال پر نگران وزیر صحت سندھ نے کہا کہ کراچی میں ٹوٹل 7 ڈرگ انسپکٹرز ہیں جو انتہائی ناکافی ہیں، ڈرگز انسپکٹرز کو ٹرانسپورٹ، سیکیورٹی اور سپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے جو انھیں میسر نہیں ہیں، میری ذاتی رائے میں ڈرگز انسپکٹرز اور میڈیکو لیگل کا علیحدہ کیڈر سسٹم ہونا چاہیے۔ مارکیٹ میں انسولین و دیگر ادویات کی کمی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صرف چار کیمیکلز پاکستان میں بنتے ہیں جبکہ باقی سب تمام خام مال برآمد ہوتا ہے، برآمدات پر پابندی ادویات کی قلت کی بڑی وجہ ہے، پہلے جب وفاق نے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا تھا تو یہ ادویات بلیک میں فروخت ہورہی تھیں، وفاق کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری پر کام ہورہا ہے جو کہ ایک اچھی چیز ہے جس سے لوگوں کو دواؤں کی دستیابی ممکن ہوجائے گی۔انھوں نے کہا کہ سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد میں آگ لگنے کے واقعے میں 4 لوگ تھے جن کے برنس 100فیصد یا 60 فیصد تھے، انھیں سول اسپتال میں مکمل علاج فراہم کیا جارہا تھا لیکن زخمیوں کے اہلخانہ کے اسرار پر ہم نے تمام زخمیوں کو پٹیل اسپتال ے برنس وارڈ میں منتقل کیا جس کے تمام اخراجات حکومت سندھ برداشت کرے گی۔ بعد ازاں نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد میں آگ کے حادثے میں شہید دو ملازمین کے لیے دعائے مغفرت اور زخمیوں کی جلد مکمل صحتیابی کی دعا کی اور ڈی جی ہیلتھ سندھ کی جانب سے اہلخانہ کو مالی تعاون کے لیے لائحہ عمل بنانے کی بھی ہدایت کی۔

About Dr.Ghulam Murtaza

یہ بھی پڑھیں

سندھ بیچ گیمز کا دوسرا روز، باکسنگ میں کراچی کے قدیر قمبرانی نے فائنل میں جگہ بنالی

کراچی، (اسپورٹس رپورٹر) کراچی ساحل سمندر پر سندھ حکومت کی جانب سے سندھ بیچ گیمز …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے