کراچی, (رپورٹ،ذیشان حسین) آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام چار روزہ عالمی اردو کانفرنس ادب و ثقافت کے رنگ سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوگئی، صدر آرٹس کونسل و صوبائی وزیر اطلاعات محمد احمد شاہ، افتخار عارف، منور سعید، سلیم صافی، مستنصرحسین تارڑ، نورالہدیٰ شاہ، ثروت محی الدین، غازی صلاح الدین، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی ، اباسین یوسف زئی، اعجاز فاروقی، فاطمہ حسن، ڈاکٹر جعفر احمد اور سید مظہر جمیل نے اختتامی اجلاس سے خطاب کیا، چاروں دن آرٹس کونسل کے تمام سیشنز میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے سنجیدگی کے ساتھ شرکت کی ،مختلف اسٹالز بھی لگائے گئے تھے، آخری روز عوام کا جمع غفیر آرٹس کونسل میں موجودتھا، صوبائی وزیر اطلاعات و صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ میں تمام بزرگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری سرپرستی کی، ان میں سے بیشتر گزرچکے ہیں اور کچھ زندہ ہیں، میں ایک عام آدمی ہوں نہ کوئی بڑا ادیب ، نہ مجھے گانا گانا آتا ہے نہ میں کوئی مصور ہوں، دنیا کے مختلف دانشوروں نے مل کر مجھے ایک برانڈبنایا ہے، یہ سب ادب کے سنجیدہ لکھنے والے لوگ ہیں، ادیبوں نے اس ادارے کو منتظم مقام دیا ہے جو اس سے پہلے اور کسی کو نہیں ملا، انہوں نے کہاکہ تارڑ صاحب جس حالت میں آئے ان میں اور انرجی ہے یہ اٹھ کر اپنے کمرے تک نہیں جاسکتے لیکن وہ اردو کانفرنس میں شریک ہوئے، یہ ان کے جذبہ کو سلام ہے۔ معروف شاعر افتخار عارف نے کہاکہ کیسی اچھی قراردادیں پیش کی گئیں، ہمارے ایک دوست سفیر ہو گئے تو کہتے ہیں کہ ہم نہ ہو سکے تو ہمارا سفیر دوست کیسے ہو گیا،بخیل اتنے ہیں کہ کھل کر داد نہیں دے سکتے، ساٹھ کی دہائی میں میں پاکستان آیا اس زمانے میں یہاں کچھ نہیں تھا جہاں ہم کھڑے کانفرنس کر رہے ہیں، اس زمانے میں مستنصر تارڑ اور قاسم پیر زادہ خوبصورت نوجوان ہوا کرتے تھے، معلوم نہیں کہ میں اگلے برس آ سکوں گا، میری طبیعت بہت خوش ہوئی، کوئی سیشن ایسا نہیں تھا کہ جو کمزور گیا ، احمد شاہ ہماری تہذیب کے امانت دار ہیں، وزیر بننے پر احمد شاہ کو مبارکباد دیتا ہوں، امید ہے کہ احمد شاہ اس منصب پر بھی کھرے اتریں گے، پاکستان اور سندھ میں کوئی تصادم نہیں ہے، میں اردو بولنے والا آدمی ہوں لیکن سندھ میری سرزمین ہے، بلاوجہ کی تقسیم سے گریز کرنا چاہیے، ہم سب ایک ہیں، جس زمانے میں لسانی فسادات عروج پر تھے تب بھی احمد شاہ نے اس کانفرنس کو بچا کر رکھا، اللہ آپ کو آگے بھی کامیابیاں دے، آپ کے شہر کو مبارکباد کہ ایک چھت تلے پورے پاکستان کے ادیب شعراءجمع ہیں، مستنصر حسین تارڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ احمد شاہ ہر سال ادیبوں کے ساتھ میلہ سجا کر کراچی میں تخلیقی آگ جلاتے ہیں ، ہم بوڑھے اس تخلیقی آگ میں جل کر دوبارہ جوان ہو جاتے ہیں، احمد شاہ کا شکریہ کہ وہ ہمیں دوبارہ جوان کر دیتے ہیں، معروف ادیبہ و جوائنٹ سیکریٹری آرٹس کونسل نور الہدی شاہ نے کہاکہ احمد شاہ سو بار وزیر بن جائیں مگر ہمارے لیے محبتوں کے سفیر ہی رہیں گے، ان کے ساتھ مل کر جس کام پر نکلے ہیں وہ محبتوں کا پیغام ہے، آرٹس کونسل نے لاہور کشمیر اور سکھر میں ادبی فیسٹیول کیے، ان میلوں سے پتا چلا کہ ہم کتنی امیدیں جگا رہے ہیں، ہماری پہچان کوئی بھی ہو ہم پاکستانی ہیں، آپ سب کو ہمارے اس سفر میں ہمارا ہمسفررہنا ہے، پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے کہاکہ احمد شاہ نے ہماری تہذیب کے فروغ کا سلسلہ شروع کیا جوکہ قابل تعریف ہے، آرٹس کونسل نے راہیں روشن کی ہیں، انہوں نے کہاکہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں نوجوان نسل جاگتی نظر آتی ہے، یہ بیڑا احمد شاہ کے ساتھ مل کر مختلف ادارے اٹھا رہے ہیں،اباسین یوسف زئی نے کہاکہ دسمبر کا مہینہ شاعروں کے لیے بیت رومنٹک ہوتا ہے، فنکار اس مہینے میں خوش ہوتے ہیں، اس کے ساتھ عالمی اردو کانفرنس کی خوشی بھی جڑ گئی ہے، اتنے سارے اکابرین کو ایک جگہ جمع کرنے کا سہرا احمد شاہ کو جاتا ہے، انہوں نے کہاکہ اردو کے ساتھ علاقائی زبانوں کے افراد جب یہاں جمع ہوتے ہیں تو پیار و محبت کے ساتھ بہت سارا ادبی خزانہ بھی لے کر جاتے ہیں، یہ خزانہ اپنے قلم کے ذریعے تمام پاکستانیوں تک پہنچائیں گے۔ثروت محی الدین نے کہاکہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد پر مبارکباد دیتی ہوں، یہ کانفرنس صرف اردو ادب ہی نہیں بلکہ اس نے تمام زبانوں کو اپنا حصہ بنایا، کلانفرنس میں سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو اور پنجابی سمیت کئی زبانوں کی ترجمانی کی گئی، یہ ایک بہتر پلیٹ فارم ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کی بات کو سمجھتے اور سنتے ہیں جس سے پیار بڑھتا ہے، ہم آہنگی اور بھائی چارگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آخر میں کلاسیکل رقص پیش کیاگیا جس میں آمنہ مواز نے آرٹس کونسل ڈانس اکیڈمی کے طلبہ کے ہمراہ رقص پیش کیا جس کو ہال میں بیٹھے لوگوں نے بہت پسند کیا اور تالیاں بجاکر خوب داد دی۔
Home / پاکستان / آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام چار روزہ عالمی اردو کانفرنس ادب و ثقافت کے رنگ سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر